شرح دعائے ابوحمزه ثمالی (۱۲)

Wed, 04/20/2022 - 05:13
دعائے ابوحمزه ثمالی

ہم نے گذشتہ قسط میں امام سجاد علیہ السلام کی نگاہ میں دعا و استغفار کی قبولیت کے شرائط بیان کئے تھے ، خداندان عصمت و طھارت کا ارشاد ہے کہ اگر کسی کے دوش پر گناہ کا سنگین بوجھ نہ ہو اور ایسا انسان خدا کی جانب کوچک کرنا چاہے تو ایسی فرد کیلئے اس کوچک اور انتقال کا فاصلہ بہت کم ہوجاتا ہے "وَ أنَّ الرّاحِلَ إلِیك قَرِیبُ المَسافَه" مسافت بہت نزدیک ہے جیسے ایک قدم کا فاصلہ ہو ۔ (۱)

امام زین العابدین علیہ السلام دعائے ابوحمزہ ثمالی کے ضمن میں استجابت دعا کے مراحل کو بیان فرماتے ہیں اور بارگاہ احدیت میں عرض کرتے ہیں کہ خدا کا شکر ہے کہ اس کی جانب تمام راستے کھلے ہوئے ہیں " اللَّهُمَّ إِنِّي أَجِدُ سُبُلَ الْمَطَالِبِ إِلَيْكَ مُشْرَعَةً ؛ اے معبود ! میں اپنے مقاصد کی راہیں تیری طرف کھلی ہوئی پاتا ہوں " "وَ مَنَاهِلَ الرَّجَاءِ إِلَيْكَ (لَدَيْكَ) مُتْرَعَةً ؛ اور امیدوں کے چشمے تیرے ہاں بھرے پڑے ہیں " "وَ الاِسْتِعَانَةَ بِفَضْلِكَ لِمَنْ أَمَّلَكَ مُبَاحَةً ؛ ہرامید وار کے لئے تیرے فضل سے مدد چاہنا آزاد و روا ہے " "وَ أَبْوَابَ الدُّعَاءِ إِلَيْكَ لِلصَّارِخِينَ مَفْتُوحَةً ؛ اور فریاد کرنے والوں کی دعائوں کیلئے تیرے دروازے کھلے ہیں "

چونکہ دعا کی استجابت و قبولیت کے دروازے کھلے ہیں پہلا مرحلہ اور پہلا زینہ دستیاب ہے تاکہ تشنگانِ معرفت و مغفرت خدا کی رحمت و عنایت سے سیراب ہوسکیں اور پروردگار عالم سے اس کے لطف و کرم کی درخواست کرسکیں ۔

امام علیہ السلام اس کے دوسرے مرحلہ کی جانب دعا میں اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں "وَ أَعْلَمُ أَنَّكَ لِلرَّاجِي (لِلرَّاجِينَ) بِمَوْضِعِ إِجَابَةٍ وَ لِلْمَلْهُوفِينَ (لِلْمَلْهُوفِ) بِمَرْصَدِ إِغَاثَةٍ ؛ اور میں جانتا ہوں کہ تو امیدوار کی جائے قبولیت ہے تو مصیبت زدوں کے لئے فریاد رسی کی جگہ ہے میں جانتا ہوں کہ تیری سخاوت کی پناہ لینا " "وَ أَنَّ فِي اللَّهْفِ إِلَى جُودِكَ وَ الرِّضَا بِقَضَائِكَ عِوَضاً مِنْ مَنْعِ الْبَاخِلِينَ وَ مَنْدُوحَةً عَمَّا فِي أَيْدِي الْمُسْتَأْثِرِينَ‏ ؛ اور تیرے فیصلے پر راضی رہنا کنجوسوں کی روک ٹوک سے بچنے اور خود غرض مالداروں سے محفوظ رہنے کا ذریعہ ہے "

خداوندا ! میں اس بات سے اگاہ ہوں کہ جو لوگ تیری ذات سے امید رکھتے ہیں اور تجھ سے لو لگاتے ہیں تو انہیں نا امید نہیں کرتا اور ان کی مکمل حمایت و پشت پناہی کرتا ہے ، جو لوگ "ملحوف" رنج دیدہ ، ستم دیدہ ، مصیبت زدہ ، افت زدہ اور غمگین ہیں تو ان کی مشکلات و مصیبت کا حل اور دور کرنے والا ہے ، جو تجھے اواز دیتے ہیں تو ان کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے ، اگر کوئی اپنے درد دل کو ، اپنی اہ و فغاں کو ، اپنے غم و اندوہ اور مصیبت کو تیرے جود و کرم  کے حوالے کردے ، تیرے فیصلے اور تیری مرضی پر راضی رہے تو تو اسے بہترین جزاء دیتا ہے ، جبکہ کچھ انسانوں میں سے کچھ لوگوں کے پاس ہے مگر وہ دینا نہیں چاہتے ، بخل و کنجوسی سے کام لیتے ہیں ، اسی لئے امام سجاد علیہ السلام نے بعد کے فقرے میں ارشاد فرمایا "وَ مَنْدُوحَةً عَمَّا فِي أَيْدِي الْمُسْتَأْثِرِينَ‏ ؛ اور خود غرض مالداروں سے محفوظ رہنے کا ذریعہ ہے " یعنی بعض افراد اھل ایثار و فداکاری نہیں ہیں بلکہ اھل "اِستئْثار" ہیں یعنی نہ یہ کہ دوسروں کو خود پر مقدم نہیں کرتے بلکہ کوشش کرتے ہیں تاکہ خود کو دوسروں کو مقدم کریں  ۔ مستأثران کی نگاہ میں تنگ نظری اور کوتاہ فکری کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ، مگر بارگاہ جُود و كَرم اور سخاوت میں تیرا ذکر خیر اور تیری ہی تعریف ہے ، اس بارگاہ میں وسعت نظری ہے ، یعنی اگر تنگ نظر افراد کی تنگ نظری محتاجوں اور نیازمندوں کو مشکلات سے روبرو کرتی ہے تو تیرا نظر لطف و کرم اور تیری رحمت کا سایہ ان کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور انہیں خوشحال کرتا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: سید بن طاووس ، سید رضی الدین ، الإقبال ، ج ۱، ص ۱۵۸

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 10 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 66