گذشتہ قسطوں میں اس بات کی جانب اشارہ کرچکا ہوں کہ جس طرح قران کریم کی ایتیں ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں احادیث ، دعائیں اور مناجات بھی ایک دوسرے کیلئے مُفسِر کا کردار ادا کرتی ہیں ، لہذا اگر دعائے ابوحمزہ ثمالی کی بھی دوسری دعاوں کے سہارے شرح کی جائے تو بہتر ہوگا ، حضرت امام سجاد علیہ السلام صحیفہ سجادیہ میں فرماتے ہیں کہ خداوندا ! تین چیزیں مجھے دعا کرنے میں رکاوٹ ہیں جبکہ ایک چیز مجھے دعا کرنے پر اکساتی ہے اور میرا حوصلہ بڑھاتی ہے ۔
وہ تین چیزیں جو دعا کرنے میں روکاٹ ہیں جس کی وجہ سے ہم دعا نہیں کر پاتے ایک : یہ کہ خدایا تو نے مجھے واجبات اور مستحبات کا حکم دیا ہے مگر میں نے اطاعت کرنے میں سستی اور کاہلی سے کام لیا اور اسے انجام نہیں دیا ۔
دوسرے یہ کہ خداوندا ! تو نے مجھے بعض کاموں کو انجام دینے سے منع کیا مگر افسوس ہم نے اسے انجام دیا ۔
تیسرے یہ کہ خدایا ! تونے مجھے فراوان نعمت عطا کی اور میں نے تیری نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے بجائے کفران نعمت کیا اور ہم نے حق شناسی نہ کی ۔
خدایا ! یہ تین چیزیں میرے دعا کرنے میں روکاوٹ ہیں جو مجھے دعا کرنے کا موقع نہیں دیتیں اور مجھے دعا کرنے سے روک دیتی ہیں ۔
البتہ ایک چیز جو مجھے دعا کرنے پر اکساتی ہے وہ تیری جانب سے دعاوں کی قبولیت ، تیری بزرگی و تیرا کرم ہے ۔
خدایا ! تو عمل کی جزا نہیں دیتا بلکہ تمام عنایتیں تیرے کرم اور لطف و احسان کی آئینہ دار ہیں ، بندے کے حق میں تیری تمام عنایتں اس کے مطالبہ کی وجہ سے نہیں ہیں بلکہ تیرے لطف و کرم کی بنیاد پر ہیں ، اسی بنیاد پر خود کو تیری بارگاہ میں دست دعا اٹھانے کی ہمت و جرآت دیتا ہوں وگرنہ میں اس کا مستحق کہاں ہوں ۔
اس دعا کے دیگر فقروں میں امام علیہ السلام نے فرمایا :
اَلحَمدُ للهِ الَّذِی أسئَلُهُ فَیُعْطِیَنِی وَ إنْ كُنْتُ بَخِیلاً حِینَ یَسْتَقْرِضُنِی ۔
یعنی حمد ہے اس ﷲ کیلئے کہ جس سے مانگتا ہوں تو مجھے عطا کرتا ہے اگرچہ وہ مجھ سے قرض کا طالب ہو تو کنجوسی کرتا ہوں اور اسے قرض سے دینے سے گریز کرتا ہوں ۔
قران کریم میں بھی اس سلسلہ میں ایا کہ "هآ أنْتُمْ هؤلآءِ تُدعَونَ لِتُنْفِقُوا وَ مِنْكُمْ مَنْ یَبْخَل وَ مَنْ یَبْخَل فَإنَّمَا یَبْخَلُ عَلی نَفسه ؛ ہاں ہاں تم وہی لوگ ہو جنہیں راہ خدا میں خرچ کرنے کے لئے بلایا جاتا ہے تو تم میں سےبعض لوگ بخل کرنے لگتے ہیں اور جو لوگ بخل کرتے ہیں وہ اپنے ہی حق میں بخل کرتے ہیں ۔ (۱)
اس کے بعد امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں کہ "وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَ أَخْلُو بِهِ حَيْثُ شِئْتُ لِسِرِّي بِغَيْرِ شَفِيعٍ، فَيَقْضِي لِي حَاجَتِي" یعنی خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ جب چاہوں اسے اپنی حاجت کیلئے پکارتا ہوں اور جب چاہوں تنہائی میں بغیر کسی سفارشی کے اس سے راز و نیاز کرتا ہوں تو وہ میری حاجت پوری کرتا ہے ۔
کبھی انسان خدا کی بارگاہ میں اپنا مدعی پیش کرنے کیلئے شفیع اور وسیلہ تلاش کرتا ہے کیوں کہ اس کے پاس شفیع اور وسیلہ نہیں ہوتا جبکہ خدا کی ذات خود بہترین شفیع ہے اور اس کی شفاعت اس کے ارحم الرحمین ہونے کا مظھر ہے ۔
شفاعت در حقیقت اسمان رحمت پر اڑا کر لے جانے والے بال و پر ہیں ، سائل کا بال و پر ہے ، شفاعت کے وسیلہ انسان کو طاقت پرواز ملتی ہے ، اسی بناء پر وہ انسان جس کا کوئی شفاعت کرنے والا نہ ہو وہ بے پر ہے ۔
امام علی سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہم نے جب بھی کچھ اس سے درخواست کی اس نے مجھے عطا کیا مگر جب بھی اس نے مجھے انفاق کرنے کو کہا میں نے بخل اور کنجوسی کی ۔
اس کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا کہ دعا کرنے والوں اور خدا کو اواز دینے والوں میں خوف اور امید ہونا چاہئے "وَالحَمدُ للهِ الَّذِی اَدعُوهُ وَلا اَدعُوا غِیرَهُ وَ لُو دَعُوتُ غِیرَهُ لَمْ یَستَجِب لِی دعائی" یعنی حمد ہے اس ﷲ کی جس کے سوا میں کسی کو نہیں پکارتا اور اگر اس کے غیر سے دعا کروں تو وہ میری دعا قبول نہیں کرے گا ، کیوں کہ دعا کو قبول کرنا کسی دوسرے کے بس کا نہیں ، جیسا کہ دعا کے اغاز میں بھی حضرت (ع) نے فرمایا " مِنْ إینٍ لِیَ الخِیرُ یا رَبِّی وَ لا یُوجَدُ إلا مِنْ عِندِكْ " یعنی مجھے کہاں سے بھلائی حاصل ہوسکتی ہے اے پالنے والے جب کہ تیرے سوا کسی کے پاس موجود نہیں ۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: قران کریم ، سورہ محمد ، ایت ۳۸
Add new comment