ہم نے گذشتہ قسط میں دعائے ابوحمزه ثمالی کے فقرے « وَلا تَمْكُرْ بِی فِی حِیلَتِكْ » کی شرح میں تحریر کیا تھا کہ اس جھان میں جو کچھ بھی ہے وہ سب کا سب خداوند متعال کی ذات لایزال کا صدقہ ہے ، قدرت مطلق فقط اس کی ذات ہے کوئی اسے عاجز و ناتوان نہیں کرسکتا جبکہ وہ جسے چاہے امیر اور جسے چاہے فقیر بنادے « يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ ؛ اے لوگو ! تم خدا کے نیازمند اور وہ تم سے بے نیاز و غنی ہے .» (۱) جسے چاہے باعزت اور جسے چاہے ذیل کردے « مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا ؛ جو شخص بھی عزّت کا طلبگار ہے تو وہ سمجھ لے کہ ساری عزّت پروردگار کیلئے ہے ۔ » (۲)
نیز یہ ایت کریمہ « وَلا یَحسَبَنَّ الَّذِینَ كَفَرُوا سَبَقُوا ؛ اور یہ خیال نہ ہو کہ وہ آگے بڑھ گئے ۔» (۳) اور « وَمَا أنْتُمْ بِمُعجِزینَ فِی الأرض ؛ اور تم زمین یا آسمان میں اسے عاجز نہیں کرسکتے ۔ » (۴) اور اس طرح کی دیگر ایات اس بات پر دلیل و نشانی ہیں کہ کوئی بھی انسان، خداوند متعال کی قدرت سے اگے نہیں بڑھ سکتا اور اس کی قدرت و توانائی کو چیلنج نہیں کرسکتا ، کوئی بھی اسے ناتوان و عاجز نہیں بنا سکتا ، کوئی بھی ایسا مقتدر، صاحب قدرت اور توانا نہیں ہے جو اس کی قدرت کے سامنے سوالیہ نشان لگا سکے اور اس کی قدرت پر انگشت اٹھا سکے ، کوئی بھی اس سے پہلے اور اس پر برتر نہیں ہے جو خدا کی قدرت کو اپنے ضمن میں اور تحت تسلط لاسکے ۔
مذکورہ ایات میں خداوند متعال کا ارشاد ہے کہ « وَلا یَحسَبَنَّ الَّذِینَ كَفَرُوا سَبَقُوا ؛ اور یہ خیال نہ ہو کہ وہ آگے بڑھ گئے ۔ » یعنی وہ لوگ تصور اور گمان نہ کریں کہ [مجھ سے] اگے بڑھ گئے ہیں ، یا اس ایت کریمہ میں فرمایا کہ وَمَا أنْتُمْ بِمُعجِزینَ فِی الأرض ؛ اور تم زمین یا آسمان میں اسے عاجز نہیں کرسکتے ۔ یعنی نہ تو کوئی اس سے اگے بڑھ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی اسے عاجز و ناتوان کرسکتا ہے ۔
یہ تمام ایات اور بیانات اس بات پر گویا ہیں کہ نہ کوئی قدرت و طاقت اس کی طاقت و قدرت سے قابل مقایسہ ہے اور نہ ہی کوئی ذات اس سے بے نیاز ہے ، جس طرح متقی اور پرھیزگار افراد اسے کے محتاج ہیں اسی طرح گناہگار اور شیطان کے پنجے میں جکڑے ہوئے افراد بھی اس کے نیازمند ہیں ۔
اس کے بعد امام علیہ السلام نے حکم دیا کہ چند بار (یا رَبِّ یا رَبِّ) کہو اور ایک سانس میں کہو ، جتنی بار بھی کہہ سکو چاہے تین بار ، چار بار ، پانچ بار ، جب تک سانس نہ ٹوٹے (یا رَبِّ) کہو ۔
اس کے بعد اس دعا کا اہم اور کلیدی مرحلہ ہے جہاں ہم اس لفظ سے روبرو ہوتے ہیں کہ « بِكَ عَرَفتُكَ وَ أنْتَ دَلَلْتَنِی عَلِیكَ وَ دَعوتَنِی إلَیكَ وَ لُولا أنْتَ لم أدْرِ مَا أنْت ؛ خداوندا ! میں نے تیرے ہی ذریعے تجھے پہچانا تو نے اپنی طرف میری راہنمائی کی اور مجھے اپنی طرف بلایا ہے اور اگر تو مجھے نہ بلاتا تو میں سمجھ ہی نہیں سکتا تھا کہ تو کون ہے ۔ »
آیت اللہ جوادی آملی فرماتے ہیں کہ اس دعا کے بعض جملے اہم اور کلیدی ہیں ، ان سے رحمت و کرم کے دوسرے باب اور دروازے کھلتے ہیں کہ ان میں سے ایک یہی جملہ ہے « بِكَ عَرَفتُكَ وَ أنْتَ دَلَلْتَنِی ۔ »
جاری ہے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ :
۱: قران کریم، سورہ فاطر ، آیت ۱۵
۲: قران کریم، سورہ فاطر ، آیت ۱۰
۳: قران کریم، سورہ انفال ، ایت ۵۹
۴: قران کریم، سورہ عنکوت، ایت ۲۲
Add new comment