امام جعفر صادق علیہ السلام ایک دوسرے بیان میں ارشاد فرماتے ہیں : جناب عباس علیہ السلام نافذ البصیرت اورانتہائی دقیق تھے اور زیارت مقدّسه ناحیهٔ میں وارد ہوا ہے: «میں گواهی دیتا ہوں کہ آپ خدا رسول (ص) اور اپنے بھائی کے خیر خواہ تھے ۔ »
امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں: خدا کی رحمت ہو میرے چچا جناب عبّاس (ع) پر، خدا! کی قسم انھوں نے ایثارو فداکاری سے کام لیا اور میدان جنگ میں شجاعت و جواں مردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کے قلب لشکر پر حملہ کیا دشمنوں کے لشکرنے آپ کوگھیرلیا ، آپ کے لیے مزاحمت پیدا کی اورآپ کو آزار و اذیت کا نشانہ بنایا یہاں تک کہ آپ نے اپنی جان اپنے بھائی پر نچھاور کردی ۔
نیز آپ کے دونوں ہاتھ کٹ گئے اس بدلے میں خداوند عالم نے آپ کو جنت میں دو پر عطا فرمائے ہیں جن کے ذریعہ آپ ملائکہ کےساتھ جنت میں پرواز کرتے ہیں جس طرح جناب جعفر ابن ابیطالب علیھما السلام کو بھی دو پر عطا فرمائے تھے یقینا خداوند عالم کے نزدیک جناب عباس علیہ السلام کا وہ عظیم مرتبہ اور مقام ہے کہ قیامت کے دن تمام شہدا اس پر رشک کریں گے ۔
اسی طرح حضرت علی علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق حضرت عباس علیہ السلام کا خداوند عالم کی بارگاہ میں بڑا عظیم درجہ اور بہت بلند مرتبہ ہے ۔
خداوند عالم نے ان دونوں ہاتھوں کے بدلے جوحضرت عباس علیہ السلام نےعاشور کے دن خدا کی راہ میں اور امام وقت کی حمایت میں قربان کئے ہیں انھیں جنت میں دو پرعطا کئے ہیں اور وہ جعفرطیار (س) کی طرح جنت کی فضاؤں میں فرشتوں کے ہمراہ پرواز کرتے ہیں ۔ [1]
جب حضرت علی علیہ السلام بستر شهادت پر تھے تو اپ نے حضرت عباس علیه السلام کو بلایا اورانھیں سینہ سے لگا کر فرمایا: «ولدی و ستقر عینی بک فی یوم القیامه؛ اے میرے بیٹےعنقریب تمھارے ذریعہ قیامت کے دن میری آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان فراہم ہوگا ۔ (2)
حضرت امام حسین علیه السلام نے بارہا مختلف مناسبتوں پر حضرت عباس علیه السلام کی شأن میں فضائل و کمالات کی گہرافشانی فرمائی ہے جیسے شب عاشور جناب عباس علیه السلام سے مخاطب ہوکر ارشاد فرمایا: "یا عباس ارکب بنفسی یا اخی حتیٰ تلقاهم فتقول لهم مالکم ؛ اے عباس تم اپنے گھوڑے پر سوار ہو ، اے میرے بھائی میری جان تم پر قربان ہو جاکر دشمنوں سے کہو تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم ایسا سلوک کیوں کر رہے ہو ۔ ؟ [3]
اس عبارت میں امام حسین علیه السلام نےجناب عباس علیہ السلام کے بارے میں انتہائی بلند اورمحبت امیز عبارت استعمال کرتے ہوئے ان کی توصیف و تعریف فرمائی ہے.
حضرت عباس(ع) کا علمی مقام و مرتبہ
حضرت عباس (ع) کی ولادت باسعادت ایسے گھرانے میں ہوئی جو علم و حکمت کا خزانہ تھا ، جناب عباس علیہ السلام نے امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام ، امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام سے فیض حاصل کیا اور بلند ترین علمی مرتبہ پر فائز ہیں ، حضرت ابوالفضل العباس(ع) ائمہ معصومین علیھم السلام کی اولاد کے فقہا اور دانشمندوں میں سے تھے جیسا کہ بزرگ علماء و محدثین نے ان کی شان میں بیان کیا ہے "هو البحر من اى النواحى اتيته" و یا "فلجته المعروف و الجواد ساحله" ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے عظیم المرتبت چچا حضرت عباس (ع) کی شان میں فرمایا: كان عمنا العباس نافذا البصيره " ہمارے چچاعباس علیہ السلام نافذ البصیرت (ذہین سمجھدار اور دقیق) تھے" ۔
مرحوم علامه محمد باقر بيرجندى نے بھی تحریر کیا ہے: ان العباس من اكابر الفقها و افاضل اهل البيت، بل انه عالم غير متعلم و ليس فى ذلك منافاه لتعلم ابيه اياه. " بیشک حضرت عباس علیہ السلام بزرگ فقها اورخاندان نبوت کی نمایاں شخصیتوں میں سے تھے، بلكہ وہ عالم غیر معلم تھےاور اس کا اس بات سے کوئی ٹکراؤ نہیں ہے کہ انھوں نے اپنے والد حضرت امام علی علیہ السلام سے فیض حاصل کیا تھا ۔
تحریر: مولانا سید حمیدالحسن زیدی
مدیر الاسوہ فاؤنڈیشن سیتاپور ھند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[1] العباس، سید عبدالرزاق مقدم، ص ۷۵.
[2] معالی السبطین، ج ۱، ص ۴۵۴.
[3] موسوعه کلمات الامام الحسین علیه السلام، معهد تحقیقات باقرالعلوم علیه السلام، قم، دارالمعروف، ۱۴۱۵ هـ ق، ص ۳۹۱.
Add new comment