اميرالمؤمنين على بن ابی طالب عليهما السّلام فرماتے ہیں "إِنَّ اَلنَّاسَ إِلَى صَالِحِ اَلْأَدَبِ أَحْوَجُ مِنْهُمْ إِلَى اَلْفِضَّةِ وَ اَلذَّهَب ؛ لوگوں کو سونے چاندی سے زیادہ ادب کی ضرورت ہے ۔ « [1]
مختصر تشریح:
انبیاء اور اولیاء الہی نے ھمیشہ ادب اور احترام کی تاکید ہے ، قران کریم نے صدر اسلام کے مسلمانوں کو ادب اور احترام کا سبق دیتے ہوئے کہا " يَا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا لاتُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَىِ اللّهِ وَرَسُولِه وَاتَّقُوااللّهَ إِنَّ اللّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ يَا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا لاتَرْفَعُوا أَصْواتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِىِّ وَلاتَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمالُكُمْ وَأَنْتُمْ لاَ تَشْعُرُونَ » [2]
اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبیِ مکرّم [صلی اللہ علیہ و الہ وسلم] کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات (بھی) نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے سارے اعمال ہی (ایمان سمیت) غارت ہو جائیں اور تمہیں (ایمان اور اعمال کے برباد ہوجانے کا) شعور تک بھی نہ ہو ۔
مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی (ص) بھی ادب کے سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ " اَنـَا اَديبُ اللّه وَ عَلىٌّ اَديبى، اَمَرَنى رَبّى بِالسَّخاءِ وَ الْبِرِّ وَ نَهانى عَنِ الْبُخْلِ وَ الْجَفاءِ وَ ما شَىءٌ اَبْغَضُ اِلَى اللّه عَزَّوَجَلَّ مِنَ الْبُخْلِ وَ سوءِ الْخُلُقِ، وَ اِنَّهُ ليُفْسِدُ العَمَلَ كَما يُفْسِدُ الخَلُّ الْعَسَلَ؛ [3]
میں نے خدا سے ادب سیکھا ہے اور علی نے مجھ سے ادب سیکھا ہے ، میرے خدا نے مجھے سخاوت اور نیکی کا حکم دیا ہے نیز بخل اور بے جا سختی سے منع کیا ہے ، خداوند متعال کے نزدیک بخل اور بد اخلاقی سے زیادہ کوئی چیز بری نہیں کیوں کہ بد اخلاقی انسان کے عمل کو ویسے ہی ضایع کردیتی ہے جیسے سرکہ شھد کو خراب کردیتا ہے ۔
البتہ بد اخلاقی فقط یہ نہیں کہ کسی کی توہین کی جائے یا کسی کے ساتھ برا انداز گفتگو اپنائے جائے بلکہ کبھی خدا کی ناشکری بھی بد اخلاقی شمار کی جاتی ہے جیسا کہ جناب دعبل آٹھویں امام حضرت علی رضا علیہ السلام سے نقل فرماتے ہیں " عَنْ دِعْبِلِ بنِ علىّ : اَنَّهُ دَخَلَ عَلى اَبِى الحَسَنِ الرِّضا عليه السلام وَ اَمَرَ لَهُ بِشَىْ ءٍ، فَاَخَذَهُ وَ لَمْ يَحْمَدِ اللّه. قالَ: فَقالَ لَهُ: لِمَ لَمْ تَحْمَدِ اللّه؟! قالَ: ثُمَّ دَخَلْتُ بَعْدُ عَلى اَبى جَعفَرٍ عليه السلام وَ اَمَرَ لى بِشَىْ ءٍ، فَقُلْتُ: اَلْحَمدُ لِلّهِ. فَقالَ لى: تَاَدَّبْتَ ۔ [4]
دعبل حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی خدمت میں پہونچے تو امام (ع) نے انہیں تحفہ پیش کرنے کو کہا ، جناب دعبل نے تحفہ لینے کے بعد خدا کا شکر ادا نہیں کیا تو امام (ع) نے فرمایا کہ تم نے خدا کا شکر کیوں نہیں ادا کیا، جناب دعبل کہتے ہیں کہ کچھ دنوں بعد جب دوبارہ امام (ع) کی خدمت میں پہونچا تو امام (ع) نے مجھے تحفہ دینے کو کہا ، اس بار ہم نے تحفہ لینے کے بعد خدا کا شکر ادا کیا تو امام (ع) فرمایا : تم ادب بجالائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
1: آمِدی ، ابوالفَتح ، غرر الحکم و دررالکلم، ج 1، ص 318
2: قران کریم ، سورہ حجرات ، ایت 2
3: مكارم الاخلاق ص 17.
4: کلینی، اصول کافی (مطبوعہ الاسلامیه) ج 1، ص496، ح 8.
Add new comment