امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں:
’’وَ الله لَقَدْ رَاٴئتُ عَقِيْلاً وَ قَدْ اٴمْلَقَ حَتيّٰ اَسْتَمَاحَنِی مِن بُرِّكُمْ صَاعاً وَ رَائتُ صِبْيَانَہُ شُعْثَ الشُّعُوْرِ غَبِرَ الاٴلْوَانِ مِنْ فَقْرِہِمْ كَاٴنَّمَا سوِّدَتْ وُجُوْہُہُمْ بِالْعَظْمِ وَ عَاوَدَنِی مُوٴَكِّداً“۔
’’خدا کی قسم میں نے دیکھا کہ میرا بھائی عقیل تنگ دست ہے، اور اُس نے مجھ سے درخواست بھی کی کہ بیت المال سے کچھ وظیفہ بڑھادوں اور میں نے ان کے بچوں کو دیکھا کہ بھوک کی وجہ سے اُن کے حال اور رنگ متغیر ہوچکا تھا، عقیل نے بار بار اصرار بھی کیا۔۔۔ تاکہ میں عدالت سے ہاتھ اٹھالوں، لیکن میں نے لوہے کی گرم سلاخ کو عقیل کی طرف بڑھایا، عقیل چونکے، اے بھائی مجھے آگ سے جلانا چاہتے ہو تو میں نے کہا: اے عقیل تم دنیا کی آگ میں جلنا پسند نہیں کرتے لیکن مجھے جہنم کی آگ میں دھکیلنا چاہتے ہو جو زیادہ سخت ہے‘‘۔
حضرت علی (ع) کا زہد و تقوی
امام علی علیہ السلام کے زہد و تقويٰ کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ آپ کو خبر دی گئی کہ عثمان بن حنیف جو بصرہ کا گورنر تھا وہ کسی ایسی دعوت میں اور ایسی محفل میں شامل ہوا ہے جہاں سب اُمراء شریک تھے، اس میں غریب نہ تھے، تو امام علی علیہ السلام نے اس کے پاس ایک خط لکھا اور متنبہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’اَلاَ وَ إنَّ لِكُلِّ مَامُوْمٍ اِمَاماً يَقْتَدِی بِہِ۔۔۔ اِلاَّ وَ اِنَّ اِمَامَكُمْ قَدْ اِكْتَفيٰ مِنْ دُنْيَاہُ بِطِمْرَيْہِ وَمِنْ طَعْمِہِ بِقُرْصَيْہِ“۔
”اے حنیف کے بیٹے!“ آگاہ رہو کہ ہر ماموم کے لئے ایک امام ہوتا ہے جس کی وہ پیروی کرتا ہے اور اس کے علم کے نور سے روشنی حاصل کرتا ہے، کیا تمہیں نہیں معلوم آپ کا امام دنیا سے دو پُرانے کپڑے پہن کر اور دو خشک روٹیاں کھا کر گزر بسر کرتا ہے، (اور تم ایسی دعوت میں شریک ہوتے ہو)۔
نیاز مندوں کے ساتھ ہمدردی
امام علی علیہ السلام محتاج اور نیازمند لوگوں کے ساتھ ہمدردی فرماتے تھے، چنانچہ آپ ہی کا فرمان ہے:
’’اٴَقْنَعَ مِنْ نَفْسِی بِاٴنْ يُقَالُ ہَذَا اٴمِيْرُ الْمُوْمِنِيْنَ وَ لَا اُشَارِكْہُم فِی مَكَارِہِ الدَّہْرِ“۔
”کیا میں اس بات پر اپنے نفس کو قانع کرلوں کہ مجھے امیر المومنینؑ کہا جائے، جبکہ ان کی مشکلات اور تلخیوں کے ساتھ شریک نہ ہوں، بلکہ میں مشکلات میں ان کے لئے نمونہ بنوں گا، میں ”علی“ لذیذ غذا کھانے کے لئے پیدا نہیں ہوا ہوں جیسا کہ حیوانات کا پورا ہم و غم چارہ اور گھاس ہوتا ہے۔
حضرت علی (ع) اور حق محوری
امام علیہ السلام حق پرست، حق جو، حق دوست اور حق گو تھے، جیسا کہ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:”علی مع الحق، و الحق مع علی“علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی (ع)کے ساتھ ہے۔
امام علیہ السلام کو پورا جہاد حق کے قیام کے لئے تھا، چنانچہ آپ نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں:
”وَ الله لَہِيَ اٴحَبُّ إلَيَّ مِنْ إمْرَ تِكُمْ إلاَّ اٴَنْ اٴُقِيْمَ حَقّاً اٴوْ اٴَدْفَعَ بَاطِلاً“۔
”قسم بہ خدا! میرے اس جوتے کی قیمت تم پر حکومت کرنے سے زیادہ ہے مگر یہ کہ اس کے ذریعہ سے حق کو قائم کرسکوں اور باطل کو مٹا سکوں“۔
اس کے بعد اسی خطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’فَلا نْقَبَنَّ الْبَاطِلَ حَتّيٰ يَخْرُجُ الْحَقُّ مِنْ جَنْبِہِ“۔
’’میں باطل کو شگافتہ کرنا چاہتا ہوں تاکہ حق کو اس کے پہلو سے نکال لوں“۔
قارئین کرام! ان جملوں کی روشنی میں امام علی علیہ السلام کی حق دوستی اور حق محوری روشن ہوجاتی ہے۔
حضرت علی اور شہادت طلبی
کبھی آپ میدان جنگ سے فرار نہ ہوئے جیسا کہ نہج البلاغہ کے ۲۲ ویں خطبہ میں فرماتے ہیں:
’’وَ مِنَ الْعَجَبِ بَعْثُہُمْ إليٰ اٴنْ اٴبْرَزَ لِلطَّعَانِ! وَ اٴنْ اٴَصْبِرْ لِلْجَلَادِ، ہَبَلَتْہُمْ الہَبُوْلُ، لَقَدْ كُنْتُ َو مَا اٴَہَدَّدَ بِالْحَرْبِ وَ لَا اٴَرْہَبُ بِالضَّرْبِ، وَ اِنِّی لَعَليٰ يَقِيْنٍ مِنْ رَبِّی وَ غَيْرَ شُبْہَةٍ مِنْ دِيْنِی“۔
”مجھے تعجب ہے اُن پر جو مجھ سے چاہتے ہیں کہ میں ان کے نیزوں کے سامنے حاضر ہوجاؤں، اور ان کی تلوار کے سامنے صبر کروں، سوگوار ان کے غم میں روئیں، میں نہ جنگ سے ڈرتا ہوں اور نہ تلوار سے خوف زدہ ہوں، میں خدا پر یقین رکھتا ہوں، اور شک و شبہ میں مبتلا نہیں ہوں‘‘۔
Add new comment