تبرّے کی اہمیت

Mon, 02/21/2022 - 13:30

اگر کسی کے دل میں دشمنانِ اہلبیتؑ کے لیے نفرت نہیں ہے اور وہ زبان و عمل سے اس کا اظہار نہیں کرتا تو اس کا تمام بنیادی عقائد پر ایمان لانا ناقص ہے۔ لہٰذا نہ صرف یہ کہ تبرّی واجب ہے بلکہ دیگر بنیادی عقائد کی سلامتی اور کمال کے لیے اہلبیتؑ کے دشمنوں سے بیزاری ضروری ہے۔

تبرّے کی اہمیت

اہل تشیع اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ ولایتِ اہلبیتؑ کو قبول کیے بغیر کسی کا ایمان لانا یا کسی نیک عمل کو انجام دینا کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا ہے۔ اس بابت اہلبیت اطہار علیہم السلام کی طرف سے بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں۔ (جنکا یہاں ذکر کرنا مناسب نہیں) اس مضمون میں ہمارا مقصد تولّیٰ پر نہیں بلکہ تبرّی کی اہمیت پر گفتگو کرنا ہے۔ بعض افراد کے مطابق تبرّی کی اہمیت تولی کے مقابلے قدرے کم ہے۔ بعض لوگوں کا تو یہ خیال ہے کہ تبرّیٰ واجب ہی نہیں ہے۔ بقول ان کے جب تولّیٰ سے نجات کی ضمانت حاصل ہے تو تبرّیٰ یعنی دشمنان اہلبیت سے اظہارِ بیزاری کی کیا ضرورت ہے؟ ان کے اس سوال میں بھلے ہی ان کے دل کی سادگی ہی مضمر ہو مگر ان کی نیت پر شک کیا جاسکتا ہے۔ اب آئیے اس سوال کے جواب کی طرف رخ کیا جائے کہ تبرّی واجب ہے یا نہیں؟

شیعوں کے بزرگ محدّث شیخ صدوق (رح) نے اس سوال کا جواب اس طرح دیا ہے: اعتقادنا فی البراة انھا واجبة۔ ہمارا (یعنی شیعوں کا) عقیدہ ہے کہ تبرّی واجب ہے۔
اسی باب میں اس سوال کا جواب امام جعفر صادق علیہ السلام کے ان جملوں سے اخذ کیا جاسکتا ہے۔ آپؑ نے دینِ خدا کے دشمنوں اور دشمنان خدا کے دوستوں سے برائت و بیزاری کو واجب قرار دیا ہے۔ امام علیہ السلام فرماتے ہیں:

“من خالف دين الله، وتولى أعداء الله، أو عادى أولياء الله، فالبراءة منه واجبة، كائنا من كان، من أي قبيلة كان”۔
ترجمہ: جو دین خدا کی مخالفت کرے اور دشمنان خدا سے دوستی کرے یا خدا کے دوستوں سے دشمنی کرے تو اس سے برائت و بیزاری واجب ہے خواہ وہ شخص کوئی بھی ہو اور کسی قبیلے سے تعلق رکھتا ہو۔
( الاعتقادات فی دین الامامیة، ص١١١)

مذکورہ حدیث میں وجوبِ تبرّیٰ کے ساتھ ساتھ اس بات کی وضاحت بھی موجود ہے کہ کن افراد سے تبرّی کرنا واجب ہے۔ جس کسی فرد کے عمل یا عقیدے میں یہ خصلتیں پائ جائیں گی اس سے تبرّی واجب ہے خواہ وہ شخص کوئی بھی ہو۔

اتنا ہی نہیں بلکہ اس بات کی بھی تاکید کی گئ ہے کہ بغیر تبرّی کے کوئ بھی عقیدہ مکمل نہیں ہو سکتا۔ علامہ مجلسی (رح) نے اس ذیل میں نقل کیا ہے کہ لا یتم الاقرار باللہ و برسلہ و بالائمة الا بالبرائة من اعدائھم۔ بغیر دشمنان اہلبیتؑ سے برائت کیے ہوئے کسی کا بھی توحید، نبوت و امامت کا عقیدہ مکمل نہیں ہوسکتا۔
(بحار الأنوار – ج ٨ – ص ٣٦٦)

خلاصہ یہ ہے کہ اگر کسی کے دل میں دشمنانِ اہلبیتؑ کے لیے نفرت نہیں ہے اور وہ زبان و عمل سے اس کا اظہار نہیں کرتا تو اس کا تمام بنیادی عقائد پر ایمان لانا ناقص ہے۔ لہٰذا نہ صرف یہ کہ تبرّی واجب ہے بلکہ دیگر بنیادی عقائد کی سلامتی اور کمال کے لیے اہلبیتؑ کے دشمنوں سے بیزاری ضروری ہے۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
4 + 5 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 92