چھٹے امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ و سلم سے نقل فرماتے ہیں کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا «رجب شهر الاستغفار لاُمَّتي، فأكثروا فيه الاستغفار فإنه غفور رحيم ويسمى رجب الاصبّ لانّ الرحمة على أُمّتي تصبُّ فيه صَبّا ، فاستكثروا من قول "أَسْتَغْفِرُ الله وَأَسْأَلُهُ التَّوْبَةَ» [1]
یعنی ماہ رجب میری امت کیلئے استغفار کا مہینہ ہے لہذا اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ استغفار کرو، خدا سے بخشش طلب کرو کہ خدا بخشنے والا اور مہربان ہے نیز رجب کو اصبّ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس ماہ میں میری امت پر کثرت سے رحمتوں کا نزول ہوتا ہے ۔
دعا، وظائف اور اعمال کی کتابوں میں بھی اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ اس ذکر کو کہنے کی تاکید ہے «اَسْتَغْفِرُ الله وَ اَسْئَلُه التَّوْبَةَ» یعنی میں خدا سے بخشش طلب کرتا ہوں اور اس سے توبہ کی توفیق مانگتا ہوں ۔
امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام استغفار کے سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ «الاستِغفَارُ دَرَجةُ العِلِّيّينَ ، و هُو اسمٌ واقعٌ على سِتَّةِ مَعـانٍ : أوّلُها النـدمُ علـى ما مضى ، و الثّاني العَزْمُ على تَرْكِ العَوْدِ إلَيهِ أبَدا ، و الثّالثُ أنْ تُؤدّيَ إلى المَخْلوقينَ حُقوقَهُم ··· و الرّابعُ أنْ تَعْمِدَ إلى كُلِّ فَريضةٍ علَيكَ ضَيَّعْتَها فتُؤدّيَ حَقَّها ، و الخامسُ أنْ تَعْمِدَ إلى اللَّحمِ الَّذي نَبَتَ على السُّحتِ فتُذيبَهُ بالأحْزانِ حتّى تُلْصِقَ الجِلدَ بالعَظمِ و يَنْشَأ بَينَهُما لَحمٌ جديدٌ ، و السّادسُ أنْ تُذيقَ الجِسمَ ألَمَ الطّاعةِ كما أذَقتَهُ حَلاوةَ المَعصيةِ ، فعند ذلكَ تقولُ : أستَغْفِرُ اللّه َ» (2)
واقعہ یہ کہ جب ایک شخص نے آپ کے سامنے استغفار کیا یعنی «استغفر اللہ» کہا تو حضرت نے فرمایا: تیری ماں تیرے ماتم میں بیٹھے ، استغفار بلند ترین لوگوں کا مقام ہے اوراس کے مفہوم میں چھ چیزیں شامل ہیں:
(۱) ماضی پر شرمندگی ۔
(۲) آئندہ کے لئے نہ کرنے کا عزم محکم ۔
(۳) مخلوقات مخلوقات کے حقوق کا ادا کردینا کہ اس کے بعد یوں پاکدامن ہو جائے کہ کوئی مواخذہ نہ رہ جائے ۔
(۴) جس فریضہ کو ضائع کردیا ہے اسے پورے طور پر ادا کردینا۔
(۵)جو گوشت مال حرام سے اگا ہے اسے رنج و غم سے پگھلا دینا یہاں تک کہ کھال ہڈیوں سے چپک جائے اورنیا گوشت پیدا ہو جائے ۔
(۶) جسم کو ویسے ہی اطاعت کا مزہ چکھائو جس طرح معصیت سے لطف اندوز کیا ہے ، اس کے بعد کہو «استغفر اللہ» ۔
سرکاردوعالم (ص) اس مقام پر ارشاد فرماتے ہیں کہ «عَنِ النَّبِىِّ صلي الله عليه و آله قالَ: مَن أَكَلَ لُقْمَةَ حَرامٍ لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلاةٌ أَرْبَعينَ لَيْلَةً، وَلَمْ تُسْتَجَب لَهُ دَعْوَةٌ أَربَعينَ صَباحاً، وَكُلُّ لَحْمٍ يُنبِتُهُ الحَرامُ فَالنّارُ أَوْلى بِهِ، وَ إنَّ اللُّقْمَةَ الواحِدَةَ تُنبِتُ اللَّحْمَ. » [3]
یعنی جس شخص نے ایک لقمہ حرام کھا لیا چالیس دن تک اس کی نماز و دعا قبول نہ ہوگی اور اس لقمہ حرام سے جو گوشت اگے گا اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا اور یاد رکھو کہ ایک لقمہ سے بھی کسی نہ کسی مقدارمیں گوشت ضرور روئیدہ ہوتا ہے یعنی ایسا نہیں ہے کہ ایک لقمہ انسان کے بدم میں اثر انداز نہیں ہوتا ۔
کھلی ہوئی بات ہے کہ جب ایک لقمہ حرام کا یہ اثر ہے تو پھر جو لوگ صبح و شام لقمہ حرام ہی پر گذارا کرتے رہتے ہیں ، ان کی عبادتوں اور دعائوں کا انجام کیا ہوگا ، ایسے لوگوں کا فرض ہے کہ دعائوں کے قبول نہ ہونے کا شکوہ کرنے کے بجائے دعائوں کے قابل قبول ہونے کا انتظام کریں تاکہ پروردگار ان کی دعائوں کو قبول کرسکے اور ان کی نمازوں کا اجرو ثواب دے سکے ، ورنہ صحیح نماز عذاب سے تو محفوظ رکھ سکتی ہے مگر جنت کا حقدار نہیں بنا سکتی ہے ۔
معصومین علیہم السلام کے بیانات میں بہشت کے لئے صحیح عمل انجام دینے کی گفتگو نہیں ہے بلکہ قابل قبول عمل انجام دینے کی تاکید ہے اور صحیح اور مقبول عمل کا بنیادی فرق یہ ہے کہ صحیح ہونے کیلئے عمل کے شرائط اور واجبات کو دیکھا جاتا ہے کہ ان میں کوتاہی نہ ہوئی ہو لیکن مقبول عمل کیلئے عمل کے صحیح ہونے کے علاوہ تقویٰ اور اخلاص کو بھی دیکھا جائے گا کیوں کہ پروردگار متقین کے علاوہ کسی کے عمل کو قبول نہیں کرے گا کیوں کہ اس نے صاف لفظوں میں یہ اعلان کردیا ہے «إِنَّما یَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقین؛ خدا فقط متقین کے اعمال کو قبول کرے گا ۔ » [4] اور انہیں کے اعمال اجرو ثواب کے حقدار نیز درجات کی بلندی کا وسیلہ و ذریعہ ہوں گے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
1: علامہ مجلسی، محمد باقر، زاد المعاد ، ص 5
2: نہج البلاغہ ، حکمت 417
3: علامہ مجلسی، محمد باقر ، بحارالانوار ج 66 ص 313 ح 7
4: قرن کریم ، سورہ مائده، ایت 27
Add new comment