امام علی علیہ السلام پیغمبر اسلام کے فدا کار سپاہی اور جانثار ساتھی تھے، اور آخری لمحات تک پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت ِاقدس میں رہے، یہاں تک کہ رسول اکرم (ص) کی رحلت کے وقت وداع کرنے والے بھی آپؑ ہی تھے، وداع پیغمبر(ص) کو نہج البلاغہ میں یوں بیان فرماتے ہیں:
’’وَ لَقَدْ قُبِضَ رَسُولُ اللهِ (ص) وَ إنَّ رَاسَہُ لَعَلٰی صَدْرِی، وَ لَقَدْ سَاٴَلَتْ نَفْسَہُ فِی كَفِّی فَاٴَمْرَرْتُہَا عَليٰ وَجْہِی وَ لَقَدْ وَلَّيْتُ غُسْلَہُ وَ الْمَلَائِكَةُ اٴَعْوَانِی، فَضَجَّتِ الدَّارُ وَ الاٴَفْنیةُ مَلاٌ يَہْبِطُ وَ مَلاٌ يَعْرُجُ وَ مَا فَارَقَتْ سَمْعِی ہَيْنَمَةُ مِنْہُمْ يَصَلُّوْنَ عَلَيْہِ“۔
’’جب رسول خدا (ص) کی روح قبض ہوئی ان کا سر میرے سینے پر تھا، میرے ہاتھوں پر انہوں نے جان دی، میں علیؑ نے پیغمبر(ص) کو غسل دیا جبکہ ملائکہ میری مدد کررہے تھے، فرشتوں کے رونے کی آواز در و دیوار سے آرہی تھی، ان ملائکہ کا ایک گروہ نازل ہوتا تھا ایک آسمان کی طرف جاتا تھا، اُن کی دھیمی آواز میں سن رہا تھا جس کے ساتھ وہ پیغمبر(ص) پر دورد پڑھتے جاتے تھے، یہاں تک کہ پیغمبر اکرم (ص) کو سپرد خاک کردیا گیا، لہٰذا رسول اسلام (ص) کی زندگی اور موت کے بارے میں مجھ سے بڑھ کر کوئی شخص آنحضرت (ص) کے قریب نہ تھا“۔
قارئین کرام! پیغمبر اکرم (ص) کی پوری زندگی میں علی علیہ السلام آپ کے محافظ اور جانثار کے طور پر آپ کی حفاظت میں مشغول رہے ہر میدان میں آپ کی آواز پر لبیک کہتے رہے یا(ں تک رحلت کے موقع پر جب سب حضرات آپ کا جنازہ چھوڑ کر سقیفہ بنی ساعدہ میں چلے گئے لیکن وارث رسول غسل و کفن میں مصروف رہا، ان روشن دلیلوں کے باوجود جو آپ کے وارث رسول ہونے میں شک کرے وہ شخص اپنی قسمت پر گریہ کرے۔
شہادت:
ہےافسوس ہے کہ یہ امن ومساوات اور اسلامی تمدّن کا علمبردار دنیا طلب لوگوں کی عداوت سے نہ بچ سکا اور ۱۹ماہ رمضان۴۰ھ کو صبح کے وقت خدا کے گھر یعنی مسجد میں عین حالت نماز میں زہر آلودہ تلوار سے انکے سر اقدس کوزخمی کیا گیا آپ کے رحم وکرم اور مساوات پسندی کی انتہا یہ تھی کہ جب آپ کے قاتل کو گرفتار کرکے آپ کے سامنے لائے اور آپ نے دیکھا کہ اس کاچہرہ زرد ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں تو آپ کو اس پر بھی رحم آگیا اور اپنے دونوں فرزندوں امام حسن علیہ السّلام وامام حسین علیہ السّلام کو ہدایت فرمائی کہ یہ تمہارا قیدی ہے اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا جو کچھ خود کھانا وہ اسے کھلانا . اگر میں اچھا ہوگیا تو مجھے اختیار ہے میں چاہوں گا تو سزا دوں گا اور چاہوں گا تو معاف کردوں گا اور اگر میں دنیا میں نہ رہا اور تم نے اس سے انتقام لینا چاہا تو اسے ایک ہی ضربت لگانا ، کیونکہ اس نے مجھے ایک ہی ضربت لگائی ہے اور ہر گز اس کے ہاتھ پاوں وغیرہ قطع نہ کیے جائیں ، اس لیے کہ یہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے ،دو روز تک علی علیہ السّلام بستر بیماری پر انتہائی کرب اور تکلیف کے ساتھ رہے اخر کار زہر کا اثر جسم میں پھیل گیا اور۲۱رمضان کو نمازِ صبح کے وقت آپ کی شہادت واقع ہوئی امام حسن علیہ السّلام وامام حسین علیہ السّلام نے تجہیزو تکفین کی اور نجف کی سرزمین میں انسانیت کے عظیم تاجدار کو ہمیشہ کے لیے سپرد خاک کردیا ۔
Add new comment