دین اسلام اور ایمان کے درمیان ایک عقلی اور منطقی رابطہ موجود ہے اس طرح کہ جو بھی مومن اور اہل ایمان ہوگا وہ یقینا مسلمان بھی ہوگا مگر جو فقط مسلمان ہے ضروری نہیں کہ وہ مومن اور اہل ایمان بھی ہو ۔
اسلامی تعلیمات، دینی کتابوں، روایتوں ، ائمہ طاھرین کے بیانات حتی قران کریم نے بھی اسلام اور ایمان درمیان فرق رکھا ہے ، یہ دونوں ایک دوسرے کے ھم پلہ نہیں ہیں اور علم منطق کے مطابق این دونوں کے درمیان عام خاص مطلق کی نسبت موجود ہے ، اس طرح کہ ہر مومن مسلمان تو ہے مگر ہر مسلمان ضروری نہیں کہ وہ مومن بھی ہو ۔
علم فقہ کے لحاظ سے منکر ولایت اہل بیت علیهم السلام پر دین اسلام کے احکامات تو جاری ہوں گے مگر ایسے انسان کو روایتیں، عقید کے حوالے سے کافر شمار کرتی ہیں ۔
قران کریم نے اس سلسلہ میں فرمایا «قالَتِ الأْعْرابُ آمَنّا قُلْ لَمْ تُؤمِنُوا وَ لكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا وَ لَمّا يَدْخُلِ الإْيمانُ فِي قُلُوبِكُمْ؛ یہ بدوعرب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں تو آپ کہہ دیجئے کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یہ کہو کہ اسلام لائے ہیں کہ ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے ۔ [1]
امام جعفر صادق علیہ السلام بھی اس سلسلہ میں فرماتے ہیں « عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عِيسَى عَنْ سَمَاعَةَ بْنِ مِهْرَانَ قَالَ: سَأَلْتُهُ عَنِ اَلْإِيمَانِ وَ اَلْإِسْلاَمِ قُلْتُ لَهُ أَ فَرْقٌ بَيْنَ اَلْإِسْلاَمِ وَ اَلْإِيمَانِ قَالَ فَأَضْرِبُ لَكَ مَثَلَهُ قَالَ قُلْتُ أَوْرِدْ ذَلِكَ قَالَ مَثَلُ اَلْإِيمَانِ وَ اَلْإِسْلاَمِ مَثَلُ اَلْكَعْبَةِ اَلْحَرَامِ مِنَ اَلْحَرَمِ قَدْ يَكُونُ فِي اَلْحَرَمِ وَ لاَ يَكُونُ فِي اَلْكَعْبَةِ وَ لاَ يَكُونُ فِي اَلْكَعْبَةِ حَتَّى يَكُونَ فِي اَلْحَرَمِ وَ قَدْ يَكُونُ مُسْلِماً وَ لاَ يَكُونُ مُؤْمِناً وَ لاَ يَكُونُ مُؤْمِناً حَتَّى يَكُونَ مُسْلِماً ؛ ایمان اور اسلام کی مثال کعبہ اور حرم جیسی ہے کہ کبھی انسان حرم میں تو ہے مگر کعبہ میں نہیں ہے البتہ اگر کعبہ میں ہو تو حرم میں بھی موجود ہے ، اسی طرح کبھی انسان مسلمان تو ہے مگر مومن نہیں ہے، اس کے برخلاف اگر مومن ہو تو یقینا مسلمان بھی ہے ۔ [2]
اس حوالے سے مسلمان دو قسموں میں تقسیم ہوجاتے ہیں :
1 ۔ ظاهر میں مسلمان ہے مگر مومن نہیں ہے ۔
2 ۔ مسلمان بھی ہے اور مومن بھی ہے ۔
ظاھری اسلام کے فوائد:
روایت میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ اپ نے فرمایا « اسلام یعنی خدا کی الوہیت اور اس کی وحدانیت کا اقرار کرنا اور رسول اسلام صلّى اللَّه عليه و اله وسلم کی رسالت کی گواہی دینا کہ اس کے طفیل میں اپ کی جان محفوظ ہے، نکاح حلال ہے اور میراث کو شرعی حیثیت حاصل ہوگی ، لوگ اس دو شھادت اور گواہی سے اسلام کے دائرہ میں آجائیں گے اور انہیں مسلمان کہا جائے گا ۔ »[3]
ایمان کی حقیقت
اگر ایمان کی حقیقت کو بہتر سمجھنا ہے تو اسے روایتوں کے سہارے سمجھا جائے تاکہ ایمان اور اسلام کے درمیان موجود فرق واضح اور روش ہوسکے ۔
1 ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں « هُوَ الظَّاهِرُ الَّذِی عَلَيْهِ النَّاسُ شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحـْدَهُ لَا شـَرِيـكَ لَهُ وَ أَنَّ مـُحـَمَّداً عـَبـْدُهُ وَ رَسـُولُهُ وَ إِقـَامُ الصَّلَاةِ وَ إِيتَاءُ الزَّكَاةِ وَ حِجُّ الْبـَيـْتِ وَ صـِيَامُ شَهْرِ رَمَضَانَ فَهَذَا الْإِسْلَامُ وَ قَالَ الْإِيمَانُ مَعْرِفَةُ هَذَا الْأَمْرِ مَعَ هَذَا فَإِنْ أَقَرَّ بِهَا وَ لَمْ يَعْرِفْ هَذَا الْأَمْرَ كَانَ مُسْلِماً وَ كَانَ ضَالًّا ؛ جو کوئی بھی شھادتیں کہے، نماز پڑھے ، زکات دے ، حج کو جائے اور ماہ مبارک رمضان میں روزہ رکھے اسے مسلمان کہتے ہیں مگر مومن اسے کہتے ہیں جو ہماری ولایت کا معتقد ہو کہ اگر ہماری [ معصوم اماموں] ولایت کا اعتراف نہ کرے اور اس پر ایمان نہ لائے تو وہ مسلمان تو ہے مگر گمراہ ہے ۔ »[4]
2 ۔ ابو حمزه فرماتے ہیں کہ ہم نے امام باقر عليہ السلام سے سنا کہ حضرت نے فرمایا : « امام علی علیہ السلام وہ دروازہ ہیں جسے خداوند متعال نے کھولا ، جو بھی اس میں داخل ہوگیا وہ مومن ہے اور جو اس خارج ہوگیا وہ کافر ہے ۔ »[5]
نتیجہ :
مذکورہ ایات اور روایتوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مومن، شیعہ ہونے کے برابر ہے ، یعنی منکرین امامت کو ان کے ظاھری اسلام کی وجہ سے مسلمان تو کہا جائے گا مگر مومن نہیں کہا جائے گا کیوں کہ انہوں نے معصوم اماموں کی امامت پر ایمان نہ لا کر خدا اور اس کے رسول کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے، البتہ ان کے ساتھ ویسے نہیں پیش ائیں گے جیسے کافر کے ساتھ پیش اتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[1] قران کریم، سوره حجرات، آیت 14
[2] کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، [كتاب الإيمان و الكفر] ، ج2، ص28 [عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عِيسَى عَنْ سَمَاعَةَ بْنِ مِهْرَانَ قَالَ: سَأَلْتُهُ عَنِ اَلْإِيمَانِ وَ اَلْإِسْلاَمِ قُلْتُ لَهُ أَ فَرْقٌ بَيْنَ اَلْإِسْلاَمِ وَ اَلْإِيمَانِ قَالَ فَأَضْرِبُ لَكَ مَثَلَهُ قَالَ قُلْتُ أَوْرِدْ ذَلِكَ قَالَ مَثَلُ اَلْإِيمَانِ وَ اَلْإِسْلاَمِ مَثَلُ اَلْكَعْبَةِ اَلْحَرَامِ مِنَ اَلْحَرَمِ قَدْ يَكُونُ فِي اَلْحَرَمِ وَ لاَ يَكُونُ فِي اَلْكَعْبَةِ وَ لاَ يَكُونُ فِي اَلْكَعْبَةِ حَتَّى يَكُونَ فِي اَلْحَرَمِ وَ قَدْ يَكُونُ مُسْلِماً وَ لاَ يَكُونُ مُؤْمِناً وَ لاَ يَكُونُ مُؤْمِناً حَتَّى يَكُونَ مُسْلِماً قَالَ قُلْتُ فَيُخْرِجُ مِنَ اَلْإِيمَانِ شَيْءٌ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ فَيُصَيِّرُهُ إِلَى مَا ذَا قَالَ إِلَى اَلْإِسْلاَمِ أَوِ اَلْكُفْرِ وَ قَالَ لَوْ أَنَّ رَجُلاً دَخَلَ اَلْكَعْبَةَ فَأَفْلَتَ مِنْهُ بَوْلُهُ أُخْرِجَ مِنَ اَلْكَعْبَةِ وَ لَمْ يُخْرَجْ مِنَ اَلْحَرَمِ فَغَسَلَ ثَوْبَهُ وَ تَطَهَّرَ ثُمَّ لَمْ يُمْنَعْ أَنْ يَدْخُلَ اَلْكَعْبَةَ وَ لَوْ أَنَّ رَجُلاً دَخَلَ اَلْكَعْبَةَ فَبَالَ فِيهَا مُعَانِداً أُخْرِجَ مِنَ اَلْكَعْبَةِ وَ مِنَ اَلْحَرَمِ وَ ضُرِبَتْ عُنُقُهُ .]
[3] مجلسی ، بحار الأنوار، جلد 64، ص322
[4] مجلسی ، بحار الأنوار، جلد 64، ص322 [مـُحـَمَّدُ بْنُ يَحْيَی عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ السِّمْطِ قَالَ : سَأَلَ رَجُلٌ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام عَنِ الْإِسْلَامِ وَ الْإِيمَانِ مَا الْفَرْقُ بَيْنَهُمَا فَلَمْ يُجِبْهُ ثُمَّ سَأَلَهُ فَلَمْ يـُجـِبـْهُ ثـُمَّ الْتَقَيَا فِی الطَّرِيقِ وَ قَدْ أَزِفَ مِنَ الرَّجُلِ الرَّحِيلُ فَقَالَ لَهُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام كَأَنَّهُ قَدْ أَزِفَ مِنْكَ رَحِيلٌ فَقَالَ نَعَمْ فَقَالَ فَالْقَنِی فِی الْبَيْتِ فَلَقِيَهَُلَهُ عَنِ الْإِسْلَامِ وَ الْإِيمَانِ مَا الْفَرْقُ بَيْنَهُمَا فَقَالَ الْإِسْلَامُ هُوَ الظَّاهِرُ الَّذِی عَلَيْهِ النَّاسُ شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحـْدَهُ لَا شـَرِيـكَ لَهُ وَ أَنَّ مـُحـَمَّداً عـَبـْدُهُ وَ رَسـُولُهُ وَ إِقـَامُ الصَّلَاةِ وَ إِيتَاءُ الزَّكَاةِ وَ حِجُّ الْبـَيـْتِ وَ صـِيَامُ شَهْرِ رَمَضَانَ فَهَذَا الْإِسْلَامُ وَ قَالَ الْإِيمَانُ مَعْرِفَةُ هَذَا الْأَمْرِ مَعَ هَذَا فَإِنْ أَقَرَّ بِهَا وَ لَمْ يَعْرِفْ هَذَا الْأَمْرَ كَانَ مُسْلِماً وَ كَانَ ضَالًّا ۔]
[5] حر عاملی ، وسائل الشيعه، ج 18، ص 567
Add new comment