حضرت علی (ع) وحی کے آغاز سے ہی پیغمبر(ص) کے ساتھ تھے ، امام علی علیہ السلام وہ بلند مقام شخصیت ہیں جنہوں نے نور وحی کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ فرمایا اس لئے تو رسول ختمی مرتبت نے فرمایا تھا، اے علی جو میں دیکھتا ہوں وہ آپ بھی دیکھتے ہیں جو میں سنتا ہوں وہ آپ بھی سنتے ہیں۔
امام علیہ السلام نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں:
’’وَ لَقَدْ كَانَ يُجَاوُرِ فِی كُلّ سَنَةٍ بِحْرَاءَ فَاٴرَاہُ وَلَا يَراہُ غَیرِی، وَلَمْ يَجْمَعْ بَيْتٌ وَاحِدٌ يَومَئِذٍ فِی إلاسُلَامِ غَيْرَ رَسُولَ الله (ص)، وَ خَدِيْجَةَ وَ اٴنَا ثَالِثُہُمَا“۔
’’امام فرماتے ہیں رسول خدا (ص) ہر سال کچھ عرصہ غار حرا میں جایا کرتے تھے، میں ان کو دیکھتا تھا ، اُس زمانہ میں واحد گھر جس میں رسول خدا (ص)اور جناب خدیجہ اور تیسر ا میں تھا کوئی اور گھر میں نہیں تھا‘‘۔
اس کے بعدارشاد فرماتے ہیں:
’’اٴرَيٰ نُورَ الْوَحْيِ وَ الرِّسَالَةَ، وَ اٴشُمُّ رِيْحَ النَّبُوَةِ وَ لَقَدْ سَمِعْتُ رَنَّةَ الشِّيْطَانِ حِيْنَ نَزَلَ الْوَحْيُ عَلَيْہِ، فَقُلْتُ يَا رَسُوْلَ اللهِ مَا ہَذِہِ الرَّنَّةُ، فَقَالَ (ص) ہٰذَا الشِّيْطَانُ قَدْ اٴيِسْ مِنْ عِبَادَتِہِ، إنَّكَ تَسْمَعُ مَا اٴَسْمَعُ وَ تَريٰ مَا اٴَريٰ إلاَّ اٴنَّكَ لَسْتَ بِنَبِيٍ وَ لَكِنَّكَ لَوَزِیرٌ وَ اٴنَّكَ لَعَليٰ خَيْرٍ“۔
’’میں نے نور وحی اور نور رسالت کو دیکھا،خوشبوئے نبوت کو سونگھتا تھا، میں نے نزول وحی کے وقت شیطان کے رونے کی آواز کو سنا، اور میں نے رسول اکرم (ص) سے پوچھا: یا رسول اللہ یہ کس کے رونے کی آواز ہے تو رسول اکرم (ص) نے فرمایا: یہ شیطان رو رہا ہے چونکہ وہ آج سے اپنی عبادت سے مایوس ہوگیا ہے، اس کے بعد رسول (ص)نے فرمایا: یا علی جو میں سنتا ہوں آپ بھی سنتے ہیں، اور جو میں دیکھتا ہوں ، آپ بھی دیکھتے ہیں مگر آپ نبی نہیں ہیں، بلکہ میرے وزیر اور جانشین ہیں، اور آپ خیر پر ہیں‘‘۔
ہم تمام امت اسلام کو چیلنج کرکے کہہ سکتے ہیں کہ آؤ ، رسول اسلام کے بعد کوئی ایسی شخصیت دکھاؤ جس کے بارے میں خود رسول اکرم (ص) نے فرمایا ہو کہ آپ میرے جانشین اور وزیر ہیں، جو میں سنتا ہوں وہ آپ بھی سنتے ہیں جو میں دیکھتا ہوں وہ آپ بھی دیکھتے ہیں، یہ فخر صرف اور صرف علی بن ابی طالب علیہ السلام کو حاصل ہے، لیکن دنیائے اسلام آج تک پریشان ہے کہ رسول اکرم (ص) کا حقیقی جانشین کون تھا، پس ہم یہ جملہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ علی علیہ السلام کل بھی مظلوم تھے اور آج بھی مظلوم ہیں۔
حضرت علی(ع) پہلے نماز گذار
حضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’اَللّٰہُمَّ اِنّی اٴوَّلَ مَنْ اٴَنَابَ وَ سَمِعَ وَ اٴجَابَ لَمْ يَسْبِقْنِی إلاَّ رَسول الله بالصَّلاة“۔
’’میں وہ سب سے پہلا شخص ہوں جس نے رسول اکرم (ص) کی طرف رجحان پیدا کیا اور اُن کی دعوت کو سنااور قبول کیا، میں سب سے پہلا نماز گزار ہوں، رسول(ص) کے علاوہ کوئی شخص ”مجھ سے پہلا نمازی نہیں ہے‘‘ نمازی نیںر ہے‘‘۔
حضرت علی (ع) جانثار رسول خدا(ص)
امام علی علیہ السلام خطبہ نمبر ۱۹۷ میں ارشاد فر ماتے ہیں:
’’وَ لَقَدْ عَلِمَ المُسْتَحْفِظُونَ مِنْ اٴصْحَابِ مُحَمَّدٍ(ص) اٴَنِّی لَمْ اَرُدُّ عَليٰ الله وَ لَا عَليٰ رَسُولِہِ سَاعَةً قَطُّ، وَ لَقَدْ وَاسَيْتُہُ بِنَفْسِی فِی المَوَاطِنِ الَّتِی تَنْكُصُ فِيْہَا الاٴبْطَالُ وَ تَتَاٴخَّرُ فِيْہَا الاٴقْدَامُ، نَجْدَةً اٴكْرَمَنِی الله بِہَا“۔
’’اصحاب محمد میں سے صاحبان اسرار جانتے ہیں کہ میں نے ایک لمحہ کے لئے بھی خدا و رسول (ص) کی مخالفت نیںِ کی، بلکہ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر مشکل مقامات پر ان کی نصرت کی جہاں بڑے بڑے سورما بھاگ جاتے تھے، اور اُن کے قدم لڑکھڑا جاتے تھے، خدا نے اس شجاعت و دلیری کے ذریعہ میری لاج رکھی ”اور میں نے پیامبر کا دفاع کیا‘‘۔
حضرت علی (ع) کی علمی شخصیت
پیغمبر عظیم الشان اسلام کا ارشاد گرامی ہے کہ ”میں علم کا شہر ہوں اور علیؑ اس کا دروازہ“ ، جن افراد کو شہرعلم تک پہنچنا ہے ان کو دو دفعہ علی (ع) کا محتاج ہونا ضروری ہے ایک دفعہ جاتے ہوئے اور دوسری مرتبہ واپس آتے ہوئے، امام علیہ السلام نہج البلاغہ میں اپنی علمی شخصیت کو یوں بیان کرتے ہیں:
’’فَاٴسْاٴلُوْنِی قَبْلَ اٴنْ تَفْقِدُوْنِی فَوَ الَّذِی نَفْسِی بِيَدِہِ لَاتَسْاٴلُوْنِی عَنْ شَيٍ فِيْمَا بَيْنَكُمْ وَ بَيْنَ السَّاعَةِ وَ لَا عَنْ فِئۃٍ تَہْدِی مِاَئةً وَ تُضِلُّ مِاَئةً إلاَّ اٴَنْبَاتُكُمْ بِنَاعِقَہَا وَ قَائِدَہَا وَ سَائِقِہَا“۔
”مجھ سے بوچھ لو قبل اس کے کہ میں تمابرے درمیان نہ رہوں، مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہٴ قدرت میں میری جان ہے، ممکن نہیں ہے کہ تم مجھ سے سوال کرو اور میں تمیں جواب نہ دے سکوں، میں آج سے قیامت تک کے واقعات کی خبر دے سکتا ہوں، ایک گروہ جو سو بندوں کو ہدایت کرتا ہے یا سو بندوں کو گمراہ کرتا ہے وہ بھی بتا سکتا ہوں، اُن کے ہانکنے والے ان کے رہبروں اور ان کے سربراہوں کے بارے میں مطلع کرسکتاہوں“۔
Add new comment