(امام زین العابدین علیهالسلام کے ذاتی خصوصیات)
حلم و بردباری
۱۔ امام زین العابدین علیهالسلام لوگوں میں سب سے زیادہ حلیم اور سب سے زیادہ غصہ کو برداشت کرنے والے تھے۔ آپ کے حلم وبردباری کی جو مثالیں مورخین نے ذکر کی ہیں ان میں سے بعض ذیل میں بیان کی جارہی ہیں:
امام زین العابدین علیه السلام نے نماز کے لئے وضو کا ارادہ کیا تو آپ کی ایک کنیز آپ کے ہاتھوں پر پانی ڈالنے لگی۔ لوٹا اس کے ہاتھوں سے چھوٹ کر آپ کے روئے مبارک پر گرپڑااور آپ کا چہرہ زخمی ہوگیا کنیز نے جلدی سے کہا خدا وندعالم فرماتاہے’’ والکاظمین الغیظ ‘‘ ’’وہ لوگ جو غصہ پی جاتے ہیں ‘‘امام ؑ نے فوراً جواب دیا ’’کظمت غیظی‘‘’’میں نے اپناغصہ پی لیا۔‘‘کنیز نے حلم امام سے خوش ہو کر مزید عنایتوں کے لالچ میں دوبارہ کہا’’والعافین عن الناس‘‘’’اور وہ لوگ جو لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں۔‘‘امام ؑ نے فرمایا خدا تجھے معاف کرے ک۔کنیز نے پھر کہا ’’واللہ یحب المحسنین‘‘’’خدا نیک برتائو کرنے والوں کو دوست رکھتاہے ۔‘‘امام ؑ نے اس سے فرمایا جا تو آزاد ہے جہاں دل چاہے چلی جا۔ (۱)
۲۔ ایک کمینے شخص نے آپ کو گالی دی۔ آپ اس کی طرف سے منھ پھیر کر نکل گئے۔ اس کمینے نے آپ سے کہا یہاں سے بھاگ جائو۔آپ یہ کہتے ہوئے جلدی جلدی وہاں سے چلے گئے ’’عنک اغضی‘‘’’میں تم سے چشم پوشی کرتاہوں۔‘‘ آپ نے اس کی باتوں کااس کے جیسا جواب نہیں دیا۔ (۲)
۳۔ آپ کے عظیم حلم و بردباری کا ایک واقعہ یہ ہے کہ ایک شخص نے آپ پر الزام لگا یااور آپ پر بہت زیادہ سب و شتم کیا ۔ آپ نے اس سے فرمایااگرہم ایسے ہیں جیسا تونے کہا ہے تو ہم خدا سے استغفار کرتے ہیں اور اگر ہم ویسے نہیں ہیں تو دعا کرتے ہیں کہ خدا تیری مغفرت کرے۔ (۳)
سخاوت
مورخین کا اجماع ہے کہ امام زین العابد ین - سب سے زیادہ سخی اورسب سے زیادہ کھلے ہاتھ کے تھے۔فقیروں ،مسکینوں اورکمزور وںکے ساتھ سب سے زیادہ نیکی کرنے والے تھے۔ آپ کی سخاوت کی بہت سی انمول داستانیں نقل ہوئی ہیں جیسے:
۱۔طمحمد ابن اسامہ بیمارپڑے ۔امام -ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے۔ جب آپ ان کے نزدیک پہنچ کر بیٹھ گئے تو اچانک محمد ابن اسامہ پر شدید گریہ طاری ہوگیا۔امام زین العابدین علیہ السلام ان سے دریافت کیا تم کیوں رو رہے ہو؟انھوںنے جواب دیا میرے اوپر قرض ہے۔ امام ؑ نے پوچھا کتنا قرض ہے؟ انھوںنے جواب دیا پندرہ ہزار دینار ۔ امام -نے فرمایا تمہارا قرض میرے ذمہ ہے اورآپ نے ان کے گھر سے نکلنے سے پہلے ہی ادا کردیا۔ (۴)
۲۔ آپ کے جودوکرم اور سخاوت کا ایک نمونہ یہ تھا کہ آپ نماز ظہر کے بعد اپنے گھر میں لوگوں کو کھانا کھلاتے تھے۔ (۵)
۳۔ آپ سوگھروں کی پوشیدہ طورپر کفالت کرتے تھے جن میں سے ہر گھر میں کئی کئی لوگ رہتے تھے۔ (۶)
فقیروں کے ساتھ آپ کا برتا
الف:
فقیروں کا احترا م و اکرام
امام زین العابدین علیہ السلام فقراء کے ساتھ اٹھتے بیٹھے تھے اور اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ کہیں ان کے جذبات واحساسات کو ٹھیس نہ پہنچ جائے اورانہیں اپنی عزت افلاس کا احساس ہوجائے۔اسی لئے آپ جب سائل کو عطا کرتے تھے تو پہلے اس کو چوم لیتے تھے تاکہ اسے ذلت و حقارت کا احساس نہ ہو۔جب آپ کے پاس کوئی سائل آتا تھا تو اسے خوش آمدید کہتے تھے ۔(۷)
اوراس سے فرماتے تھے ’’مرحبا بمن یحمل زادی الی دارالآخرۃ ‘‘ خوش بحال یہ وہ شخص ہے جو میراتوشہ آخرت وہاں تک پہنچاتاہے ۔(۸)
ب:
فقراء کے ساتھ مہربانی
آپ فقراء و مساکین پر بہت زیادہ مہربانی فرماتے تھے اور ان کے سلسلہ میں بہت رحم دل تھے۔ آپ اس بات سے بہت خوش ہوتے تھے کہ آپ کے دسترخوان پر ہمیشہ بے سہارا فقراء ومساکین ،معذور اور مفلوج افراد موجودرہیں۔آپ لقمہ بنابنا کر انہیں اپنے ہاتھوں سے کھلاتے تھے اسی طرح آپ ان کے لئے اپنی پیٹھ پر کھانا اور لکڑیاں لاد کر ان کے دروازوں تک پہنچاتے تھے ۔ فقراء و مساکین پر آپ کے لطف وکرم کا عالم یہ تھا کہ آپ نے رات میں درختوں سے کھجوریں توڑنے سے منع کردیاتھا اس لئے کہ اس وقت فقراء موجود نہیں ہوتے لہٰذااس طرح رات میں توڑ لینے سے وہ آپ کی عطاو بخشش سے محروم ہوجائیں گے۔ اسی لئے جب آپ کو معلوم ہوا کہ آپ کے نخلستان میں کام کرنے والے افراد رات کے آخری حصہ میں خرمے(کھجوریں) توڑنا چاہتے ہیں تو آپ نے ان سے فرمایا ’’لاتفعل الا تعلم ان رسول اللہ ﷺ نھی عن الحصاد والجذاذبالیل‘‘
’’ایسا ہرگزنہ کرنا کیاتم نہیں جانتے کہ پیغمبر اسلام ؐنے رات میں فصل کاٹنے اور پھل توڑنے سے منع کیا ہے۔ آپ فرماتے تھے فصل کاٹنے اور پھل توڑنے کے دن فقراء کو عطا کیا کرواس لئے کہ اس دن یہ فقراء کا حق ہے جو انہیں دیا جاتاہے۔‘‘(۹)
ج :
سائل کو خالی ہاتھ لوٹانے سے منع کرنا
امام زین العابدین علیہ السلام نے سائل کو خالی ہاتھ لوٹانے سے منع کیا ہے اس لئے کہ ایسا کرنے سے انتہائی برے نتائج کا سامنا کرناپڑتا ہے مثلاً خدا کی دی ہوئی نعمتیں چھن جاتی ہیں اور اچانک بلائیں نازل ہونے لگتی ہیں ۔ امام - نے اپنی بہت سی احادیث میں سائل کی حاجت برآوری کی ضرورت پر بہت زور دیا ہے ۔
ابوحمزہ ثمالی سے روایت ہے کہ میں نے جمعہ کے دن مدینہ میں علی ابن الحسین ؑ کے ساتھ فجر کی نماز ادا کی۔آپ نماز سے فارغ ہو کر اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئے ۔میں بھی آپ کے ہمراہ تھا آپ نے اپنی کنیز کو آواز دی جس کا نام سکینہ تھا اور آپ نے فرمایا:
’’ آج کےدن میرےدروازہ سےکوئی سائل ایسانہ گذرےجس کے لئے کھانا مہیا نہ کرو دیکھو آج جمعہ کا دن ہے۔‘‘
ابوحمزہ نے عرض کیا کہ مولا ضروری نہیں ہے کہ جو سوال کررہا ہو وہ مستحق بھی ہو۔امام ؑ نے فرمایا: ’’میں اس سے ڈرتاہوں کہ کہیں ان سوال کرنے والوں میں سے کوئی مستحق ایسا نہ رہ جائے جس کو ہم کھانانہ کھلائیں اور ہم پر وہ مصیبت نازل ہوجائے جوجناب یعقوب اور ان کی آل پر نازل ہوئی تھی۔ لہٰذا سائلوں کو کھانا کھلائو،سائلوں کو کھانا کھلاؤ۔
جناب یعقوب ؑ ہر روز ایک بھیڑ ذبح کرتے تھےاور اس کے گوشت میں سے صدقہ دیتے تھے باقی بچے ہوئے گوشت کوخود کھاتے تھے اور اپنے اہل و عیال کو کھلاتے تھے ۔ایک دن جمعہ کو افطار کے وقت ان کے دروازہ پر سے ایک مومن روزہ دار سائل کا گذر ہوا وہ ان کے دروازہ پر آکر آواز دینے لگا کہ اپنے بچے ہوئے کھانے میں سے ایک مسافر سائل کو بھی کھلادو۔ جناب یعقوب ؑ کے اہل خانہ نے اس سائل کی آوازسنی اس کے باوجود اس کے حق کا خیال نہ کیااور اس کی بات کو سچ نہیں سمجھا۔ آخروہ سائل ان لوگوں سے مایوس ہوگیا اورجب رات کی تاریکی پھیل گئی تو وہ منھ کے بل گرگیا اوررات بھر اپنے خالق سے اپنی بھوک کی شکایت کرتارہا جب کہ یعقوب ؑ اور آل یعقوب ؑ شکم سیر ہو کر سوئے اوران کے پاس بچاہوا کھانا بھی موجود تھا۔
اسی صبح خدا وند عالم نے جناب یعقوبؑ کو وحی فرمائی کہ تم نے میرے بندے کو اس طرح ذلیل کیا جس نے میرے غضب کو بھڑکا دیاہے اور میرے اوپر لازم کردیا کہ تمہاری تادیب کروں اور تمہارے اوپر اپنا عذاب نازل کروں اور تم پر اور تمہارے بیٹے کو آزمائشوں اور بلائوں میں مبتلا کروں۔ اے یعقوبؑ میرے انبیاء میں میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو میرے مسکین بندوں پر زیادہ مہربان،ان سے زیادہ قریب، ان کو زیادہ کھانا کھلانے والا اور ان کے لئے پناہ گا ہ ہو تم نے میرے اس بندہ پر رحم نہیں کیا جو میری عبادت کی راہ میں کوشاں رہتاتھا اور دنیا کے ظاہری اسباب ووسائل میں سے بہت تھوڑے پر راضی تھا۔ خبردار! مجھے قسم ہے میری عزت کی ۔میں عنقریب تم پر اپنی طرف سے بلائیں نازل کروں گااور تم کو اور تمہارے بیٹے کو مصائب وآلام کی آماجگاہ بنادوں گا۔
ابوحمزۂ ثمالی نے عرض کیا میں آپ پر قربان جاؤں کیا یہ اسی وقت کا واقعہ ہے جب جناب یوسفؑ نے خواب دیکھا تھا امام ؑ نے فرمایا ہاں یوسف ؑ نے خواب اسی رات دیکھا تھا جس رات یعقوبؑ اور ان کی آل واولاد نے شکم سیر ہو کر سوئی اور سائل پوری رات بھوکا رہا ۔ (۱۰)
آپ کے صدقات
امام زین العابدین - اپنی زندگی میں جس عمل کو سب سے زیادہ انجام دیتے تھے وہ فقراء کو صدقہ دینا
اوران کےساتھ حُسن سلوک کرنا تھا۔آپ ان کی مصیبتوں کودورکرنااوران کوخوش دیکھنا چاہتےتھے ۔
امام علیہ السلام دوسرے افراد کو بھی صدقہ دینے پر آمادہ کرتے تھے اس لئے کہ اس عمل پر عظیم جزا ملنے والی ہے۔
آپ نے فرمایا:’’کوئی شخص اگر کسی کمزور اور مسکین کو صدقہ دیتا ہے اور وہ مسکین یا کمزور اس کے لئے کوئی دعا کرتا ہے تو خدا وند عالم اس کی دعا کو ضرور قبول کرلیتا ہے ۔‘‘
ہم یہاں پر آپ کے ذریعہ صدقہ دینے کے بعض طریقوں کاتذکرہ کررہیں ہیں:
الف:
صدقہ میں لباس دینا
آپ سردیوں میں اونی لباس پہنتے تھے جب گرمی آجاتی تھی تو اسے صدقہ دے دیتے ت
ھے یااسے بیچ کر اس کی قیمت صدقہ دے دیتے تھے ۔ آپ گرمیوں میں دومصری لباس پہنتے تھے اور جب سردی کا موسم آجاتا تھا تو وہ دونوں لباس صدقہ دیتے تھے اور فرماتے تھے:
’’مجھے اپنے خداسے شرم آتی ہے کہ ایسے لباس کی قیمت لے کر کھاجائوں جس میں اس کی عبادت کرچکا ہوں۔‘‘ (۱۱)
ب:
پسندیدہ چیزوں کو صدقہ دینا
آپ صدقہ میں اخروٹ اور شکر عطاکرتے تھے ۔جب آپ سے اس کے بارے میں سوال کیا کہ تو آپ نے قرآن مجید کی اس آیت کی تلاوت فرمائی "لن تنالواالبرحتی تنفقوامماتحبون وَ مَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ" تم نیکی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنی محبوب چیزوں میں سے راہ خدا میں انفاق نہ کرو اور جو کچھ بھی انفاق کرو گے خدا اس سے بالکل باخبر ہے ۔(۱۲)
روایت ہے آپ کو انگور بہت پسند تھے۔ ایک دن آپ روزہ تھے افطار کے لئے آپ کی کنیز نے انگوروںکا گچھہ آپ کی خدمت میں پیش کیا فوراًدروازہ پر ایک سائل آگیا آپ نے حکم دیا کہ وہ سارے انگور اس سائل کو دے دیئے جائیں ۔کنیز نے فوراً ایک شخص کو اس کے پیچھے بھیجا کہ جاکر اس سے انگور خرید لے اور دوبارہ انگور لا کر آپ کی خدمت میں رکھے ۔اتنے میں ایک دوسرے سائل نے دروازہ پر دستک دی آپ نے دوبارہ وہ سارے انگور اسے دے دینے کا حکم دیا۔ کنیز نے پھراس سے بھی انگور خرید نے کے لئے ایک شخص کو بھیجا اور تیسری بار انگور آپ کی خدمت میں پیش ہی کئے تھے کہ تیسرے سائل نے آکر سوال کردیا آپ نے وہ سارے انگور اسے دیدئیے۔
ج:
اپنا مال واسباب دوسروں میں تقسیم کرنا
امام زین العابدین علیہ السلام نے دومرتبہ اپنا سارامال و اسباب دوحصوں میں تقسیم کیا۔ایک حصہ اپنے لئے رکھااور ایک فقراء ومساکین میں بانٹ دیا۔(۱۳)
د:
مخفی صدقات
آپ کو مخفی طورپر صدقہ دیناسب سے زیادہ محبوب تھا جس سے کوئی آگاہ نہ ہوسکے ۔آپ چاہتے تھے کہ جن لوگوں کو آپ عطا کرتے ہیں ان سے آپ کا رابطہ محبت کی بنیاد پر ہو اور اس بات کی سند بن جائے کہ آپ اپنے مسلمان فقیر بھائیوںکے ساتھ نیک برتائو کرتے ہیں ۔ آپ نے اپنے چاہنے والوں کو بھی مخفی طو ر پر صدقہ دینے کا حکم دیتے تھے اور فرماتے تھے ’’انھا تطفی غضب الرب ‘‘’’مخفی طور پر صدقہ دینا غضب پروردگار عالم کو خاموش کردیتاہے ۔
آپ نے اپنے فقراء کو رات میں حسن سلوک کا عادی بنایا تھا وہ اپنے دروازوں پر کھڑے ہو کر آپ کا انتظار کرتے تھے اور جب ان کی نظر آپ پر پڑتی تھی تو خوش ہو کر ایک دوسرے کو خوشخبری دیتے تھے اور کہتے تھے تھیلیوں والا آگیا۔(۱۴)
آپ کے ایک چچازاد بھائی تھے۔آپ رات میں ان کے پاس جاکر ان کو کچھ دینار عطا کرتے تھے ۔ایک دن انھوںنے کہا: امام علی ابن الحسین - میرے ساتھ صلہ رحم نہیں کرتے یہ کہہ کر آپ کے حق میں بددعا کرنے لگے ۔امام - نے ان کی گفتگو سنی اور اس کو نظرانداز کردیااوران سے یہ نہیں بتایا کہ میں ہی علی ابن الحسین ؑ ہوں۔ جب امام -کی شہادت واقع ہو گئی تو ان کو معلوم ہوا کہ جو شخص ان کے ساتھ صلہ رحم کرتا تھا وہ امام علی ابن الحسین عليه السلام ہی تھے لہٰذا اس کے بعد سے وہ آپ کی قبرمبارک پر آکر گریہ کرتے اور آپ سے معذرت کرتے تھے۔(۱۵)
ابن عائشہ کا بیان ہے کہ میں نے اہل مدینہ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ ہم کو مخفی طور پر صدقہ دینے کا سلسلہ بند نہیں ہوا یہاں تک کہ علی ابن الحسین ؑ کی شہادت ہوگئی۔ (۱۶)
سید حمید الحسن زیدی
مدیر الاسوہ فاؤنڈیشن سیتاپورھندوستان
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱: امالی صدوق ،ص/۱۶۸،الارشاد،ج/۲،ص/۱۴۶،مناقب آل ابیطالب،ج/۴،ص/۱۵۷،تاریخ دمشق، ج/۳۶، ص/۱۵۵،مختصر ابن منظور،ج/۱۷،ص/۲۴۰،سیر اعلام النبلاء، ج/۴،ص/۱۹۷، نہایۃ الدرب ،ج/۲۱،ص/۳۲۶
۲: مناقب آل ابی طالب ،ج/۴،ص/۱۷۱،البدایہ والنہایہ ،ج/۹،ص/۱۰۵
۳: الارشاد،ج/۱،ص/۱۴۶،بحوالہ نسب آل ابی طالب ،مؤلفہ عبید لی ،نسابہ،متوفی ،۲۷۰ھ
۴: الارشاد،ج/۲،ص/۱۴۹ ،مناقب آل ابی طالب،ج/۴، ص/۱۶۳، البدایہ والنہایہ،ج/۹،ص/۱۰۵،سیر اعلام النبلاء، ج/۴،ص/۲۳۹
۵: تاریخ یعقوبی،ج/۲،ص/۲۵۹
۶: مناقب آل ابی طالب ،ج/۴،ص/۱۶۶، امام باقرؑاوراحمد ابن حنبل کی روایت کے مطابق ،کشف الغمہ ، ج/۲،ص/۲۸۹،بحوالہ مطالب السئول ، بحوالہ حلیۃ الاولیاء ، الکشف،ج/۲،ص/۳۱۲، جنابذ ی ، لیکن اسی میں ج/۲،ص/۳۰۴ میں امام جعفر صادقؑ سے روایت ہے کہ آپ ۷۰ گھر وں کی کفالت کرتے تھے۔
۷: ص/۳۰۴ میں امام جعفر صادقؑ سے روایت ہے کہ آپ ۷۰ گھر وں کی کفالت کرتے تھے۔
۸: مناقب آل ابی طالب،ج/۴،ص/۱۶۷، حلیۃ الاولیاء ،ج/۳،ص/۱۳۷
۹: کشف الغمہ،ج/۳،ص/۲۱۸،بحوالہ مطالب السوؤل شافعی ،بحوالہ حلیۃ الاولیاء اصفہانی
۱۰: بحارالانوار،ج/۴۶،ص/۶۳
۱۱: علل الشرائع ،ج/۱،ص/۶۱،باب/۴۲،ح/،۱ ،مطبوعہ بیروت
۱۲: مناقب آل ابوطالب ،ج/۴،ص/۱۷۷ ، بحوالہ حلیۃ الاولیاء،ج/۳،ص/۱۳۶تا۱۴۰
۱۳: ال عمران ایت ۹۲ ، مناقب آل ابوطالب ،ج/۴،ص/۱۶۷
۱۴: مناقب آل ابوطالب،ج/۴،ص/۱۶۷، بحوالہ حلیۃ الاولیاء، ج/۳، ص/۱۴۰،جمہرۃ الاولیاء، ج /۲ ، ص/ ۷۱ ، خلاصۃ تہذیب الکمال، ص/۲۳۱
۱۵: مناقب آل ابوطالب ،ج/۴،ص/۱۶۵،ازثمالی وثوری ،تذکرۃ الحفاظ ،ج/۱،ص/۷۵، اخبارلدول،ص/۱۱۰، نہایۃ الأرب ،ج/۲۱،ص/۳۲۶،کشف الغمہ،ج/۲،ص/۲۸۹،بحوالہ مطالب السوئول ،بحوالہ حلیۃ الاولیاء ، اور اسی طرح الکشف میں ج/۲،ص/۳۱۲، از جنابذی ،از ثوری،از امام زین العابدین علیہ السلام مروی ہے کہ آپ فرماتے تھے: صدقہ غضب پروردگارکو خاموش کردیتا ہے اس روایت میں مخفی طور پر صدقہ کی کوئی قید نہیں ہے۔
۱۶: مناقب آل ابی طالب ،ج/۴،ص/۱۶۶،
۱۷: کشف الغمہ،ج/۲،ص/۳۱۹،بحوالہ نصرالدرآبی
۱۸: مناقب آل ابی طالب ج/۴،ص/۱۶۶،بحوالہ حلیۃ الاولیاء، کشف الغمہ ،ج/۲،ص/۲۹۰،بحوالہ مطالب السوئول ، بحوالہ الحلیۃ ،ج/۴،ص/۱۳۶،البدایۃ والنہایۃ ا بن کثیر ،ج/۹،ص/۱۱۴،صفۃ الصفوہ ،ج/۲،ص/۵۴، الاتہاف بحب الاشراف،ص/۴۹،الاغانی ،ج/۱۵،ص/۳۲۶
۱۹: آپ اپنی نمازوں اور اپنے عطا وبخشش کے سلسلہ میں شدید رازداری برتنے کی کوشش کرتے تھے۔ جب آپ کسی کو کچھ دیتے تھے تو اپنا چہرہ ڈھک لیتے تھے تاکہ وہ آپ کو پہچان نہ سکے ۔
۲۰: مناقب آل ابوطالب،ج/۴،ص/۱۶۶،منقول از امام باقر
۲۱: ذہبی کا بیان ہے کہ آپ کثرت سے مخفی طور پر صدقہ دیتے تھے۔
۲۲: تذکرۃ الحفاظ ،ج/۱،ص/۷۵
۲۳: آپ ایک تھیلے میں کھانا رکھ کراسے اپنی پیٹھ پر لاد کرفقراء میں تقسیم کرنے کے لئے لے جاتے تھے جس کی وجہ سے آپ کی پشت پر گھٹاپڑ گیا تھا۔
۲۴: تاریخ یعقوبی،ج/۲،ص/۳۰۳مطبوعہ بیروت
Add new comment