حضرت زهرا سلام الله علیها نے خطبہ فدک میں اپنے بابا کے بعد کے ان حقائق اور حالات سے پردہ اٹھایا ہے جو مسلمان اور اسلامی معاشرہ کی گمراہی نیز لوگوں کے دلوں کے مردہ ہوجانے کا سبب بنے تھے۔
نفاق کا مفھوم
اہل لغت نے نفاق یا منافقت کو دوروئی یا دوہرے چہرے کے معنی میں استعمال کیا ہے ، یعنی ایسا انسان جس کا ظاھر اور باطن یکساں نہ ہو ۔ [1] منافق اسے کہتے ہیں جو زبان سے کچھ اور دل میں کچھ اور رکھے تاکہ دوسروں کو چوٹ اور نقصان پہونچا سکے ۔ [2] ایات و روایت بھی اسی معنی کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
خداوند متعال نے قران کریم میں منافقین کو خطاب کرتے ہوئے یوں ارشاد فرمایا کہ «يَقُولُونَ بِأَفْواهِهِمْ ما لَيْسَ في قُلُوبِهِمْ وَ اللَّهُ أَعْلَمُ بِما يَكْتُمُون؛[3] یہ لوگ زبان سے وہ کہتے ہیں جو دل میں نہیں ہوتا ، اللہ ان کے پوشیدہ امور سے باخبر ہے ۔ »
اسلامی روایتیں بھی اسی مطلب کی جانب اشارہ کرتی ہیں ، رسول خدا (ص) نے منافق کی معرفی کرتے ہوئے فرمایا کہ «مَنْ خَالَفَتْ سَرِيرَتُهُ عَلَانِيَتَهُ فَهُوَ مُنَافِقٌ؛[4] جس کا ظاھر و باطن الگ اور یکساں نہ ہو اسے منافق کہتے ہیں» ۔
اسلامی منابع میں نفاق کی قسمیں
دینی اور اسلامی منابع میں دقت و توجہ سے یہ بات بخوبی واضح ہے کہ نفاق یا منافقت کیلئے مختلف اقسام و نوعیت تصور کی جاسکتی ہے ۔
۱: عقیدہ اوراعتقاد میں نفاق
۲: عمل اور کردار میں نفاق
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[1]. عمید، حسن؛ فرهنگ عمید، تهران، انتشارات جاویدان علمی، 1345، چاپ دوم، ص 1063.
[2]. حسینی، سید محمد؛ دوچهرگان، قم، دفتر تبلیغات اسلامی حوزه علمیه قم، 1376، چاپ اول، ص24.]
[3] آل عمران/167
[4]. بحار الأنوار، مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، ناشر: دار إحياء التراث العربي، سال چاپ: 1403 ق، ج69، ص 207.
Add new comment