سلیم بن قیس تحریر کرتے ہیں کہ خلیفہ اول ابوبکر کی بیعت لینے کیلئے امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام کے دولت کدہ پر پے درپے تین بار حملے کئے گئے ہم گذشتہ تحریر میں پہلے حملہ کی جانب اشارہ کرچکے ہیں اور اب دوسرے حملہ کی جانب اشارہ کررہے ہیں ۔
دوسرا حملہ :
دوسرے حملے میں دشمن، خانہ ولایت و امامت حضرت فاطمہ زھراء سلام اللہ علیہا کے دروازہ پر اگ اور لکڑیاں لیکر اکٹھا ہوگیا اور اس نے دروازہ کو اگ لگا دی نیز امیرالمومنین علی علیہ السلام کو گھسیٹتے ہوئے مسجد نبوی کی جانب لے چلا مگر حضرت صدیقہ طاھرہ کی مکمل حمایت و شدید استقامت سے روبرو ہوکر انہیں چھوڑنے پر مجبور ہوگیا اور اپ (ع) سے بیت نہ لے سکا ۔
سلیم بن قیس تحریر کرتے ہیں کہ ایک بار پھر عمر نے ابوبکر سے کہا کہ "کس چیز نے تمہیں علی [ع] کے پاس اپنا ایلچی بھیج کر ان سے بیعت لینے سے روک رکھا ہے ، سچ یہ ہے کہ علی [ع] اور ان چار افراد کے سوا سب نے تمہاری بیعت کرلی۔
ابوبکر، عمر سے زیادہ نرم طبیعت، مدارا کرنے والے، ذھین اور دوراندیش تھے جبکہ عمر سخت دل، شدت پسند، ظالم و جابراور جفاکار تھے ۔
ابوبکر نے سوال کیا کہ کیسے علی [ع] کے پاس بھیجوں ؟ تو عمر نے کہا کہ قنفذ کو بھیجو، وہ سخت دل، سخت گیر، بے رحم، مکہ کے ازاد شدہ افراد میں سے ہے اور اس کا تعلق بھی قبیلہ بنو عدى بن کعب سے ہے۔
عمر نے قنفذ کو علی علیہ السلام کی خدمت میں بھیجا اور کچھ افراد بھی اس کے ہمراہ کردیئے ، قنفذ علی علیہ السلام کی خدمت میں پہونچا اور اس نے حضرت (ع) سے اذن دخول مانگا مگر علی (ع) نے اجازت نہیں دیا، قنفذ اور اس کے ساتھی ابوبکر و عمر کہ جو مسجد میں ہی لوگوں کے ہمراہ بیٹھے تھے، کے پاس واپس لوٹ ائے اور ان سے کہا کہ علی [ع] ہمیں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں ۔
عمر نے کہا کہ واپس جاو، اگر انہوں نے اجازت دی تو ٹھیک وگرنہ بغیر اجازت کے داخل ہوجاو ، وہ لوگ واپس لوٹے اور انہوں نے ایک بار پر اذن دخول مانگا۔
حضرت فاطمہ زھراء سلام اللہ علیہا نے فرمایا کہ ہم ، بغیر اجازت کے گھر میں گھس آنے کی بہ نسبت تمہیں متنبہ کر رہے ہیں ، قنفذ ملعون وہیں رک گیا اور اس کے ساتھیوں نے واپس آکر عمر و ابوبکرسے نقل کیا فاطمہ [ع] ایسے ویسے کہ رہی ہیں اور وہ ہمیں بغیر اجازت کے گھر میں گھسنے کی بہ نسبت متنبہ کر رہی ہیں ۔
عمر کو غصہ اگیا اور کہا کہ "ہمیں عورتوں سے کیا لینا دینا" پھر انہوں نے کچھ اپنے حامی مردوں کو حکم دیا کہ لکڑیاں اٹھا لو نیز خود بھی لکڑیاں اٹھا لیں، ان لکڑیوں کو علی و فاطمہ و حسنین علیھم السلام کے دروازہ پر رکھ کر بلند اواز [چلا کر] کہا کہ علی و فاطمہ [علیھما السلام] سنو، " خدا کی قسم اے علی [ع] گھر سے باہر آکر خلیفہ رسول خدا صلى الله علیہ و الہ وسلم کی بیعت کرو وگرنہ تمہارے گھر کو اگ لگادیں گے ۔
فاطمہ علیها السلام نے فرمایا کہ " اے عمر ! ہمیں تم سے کیا لینا دینا "
عمر نے کہا کہ " دروازہ کھولو ورنہ تمھارے گھر کو اگ لگا دوں گا "
فاطمہ علیها السلام نے فرمایا " اے عمر ! کیا تمہیں خدا کا خوف نہیں ہے کہ طاقت کے بل پر گھر میں گھسنا چاہتے ہو ؟ "
عمر نے حضرت علیہا السلام کی کچھ نہ سنی، اس نے اگ و لکڑیاں مانگی اور گھر کو اگ لگا دیا اور پھر اسے طاقت کے بل کھول کر گھر میں گھس گیا، حضرت فاطمہ زھراء سلام اللہ علیھا نے اسے روکا اور فریاد کی " یا ابتاه، یا رسول الله ؛ اے بابا اے رسول خدا» ، تو عمر نے شمشیر کا دستہ حضرت کے پہلو پر دے مارا ۔
فاطمہ علیها السلام نے چوٹ لگتے ہیں اپنے بابا رسول خدا کو اواز دی «یا ابتاه» تو عمر نے تازیانہ اٹھایا اور حضرت فاطمہ زھراء سلام اللہ علیھا کے بازو پر دے مارا ۔
فاطمہ علیها السلام نے سسکیوں بھری اواز میں رسول خدا کو اواز دیتے ہوئے کہ « اے رسول خدا ! عمر و ابوبکر نے اپ کی وفات کے بعد کس قدر برا برتاو کیا ہے » ۔
اچانک على علیہ السلام اپنی جگہ سے اٹھے اور انہوں نے عمر کا گریبان پکڑ کر تیزی سے کھینچا اور اسے زمین پر پٹک دیا، اس کی ناک و گردن کچل ڈالا ، عمر کے قتل کا ارادہ کیا ہی تھا کہ ناگہاں رسول خدا کی وصیت یاد اگئی اور پھر فرمایا " اس خدا کی قسم جس نے محمد (ص) کو نبوت عطا کی ، اے صہاک کے بیٹے ! تم بخوبی اس بات سے اگاہ ہو کہ اگر خدا و اس کے رسول کا عہد پیمان نہ ہوتا تو ہرگز میرے گھر میں نہیں گھس سکتے تھے " ۔ [3]
اہل سنت کی معتبر کتابوں از جملہ «روح المعانی»، «الملل و النحل»، «الامامة و الخلافة» میں اس دوسرے حملے کا تذکرہ ملتا ہے ۔ [4]
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گذشتہ قسط یہاں پڑھیں
http://www.ur.btid.org/node/6422
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[3]. «فقال عمر لأبي بكر: ما يمنعك أن تبعث إليه فيبايع، فإنه لم يبق أحد إلا وقد بايع غيره وغير هؤلاء الأربعة. وكان أبو بكر أرق الرجلين وأرفقهما وأدهاهما وأبعدهما غورا، والآخر أفظهما وأغلظهما وأجفاهما. فقال أبو بكر: من نرسل إليه؟ فقال عمر: نرسل إليه قنفذا، وهو رجل فظ غليظ جاف من الطلقاء أحد بني عدي بن كعب. فأرسله إليه وأرسل معه أعوانا وانطلق فاستأذن على علي عليه السلام، فأبى أن يأذن لهم. فرجع أصحاب قنفذ إلى أبي بكر وعمر - وهما جالسان في المسجد والناس حولهما - فقالوا: لم يؤذن لنا. فقال عمر: اذهبوا، فإن أذن لكم وإلا فادخلوا عليه بغير إذن! فانطلقوا فاستأذنوا، فقالت فاطمة عليها السلام: (أحرج عليكم أن تدخلوا على بيتي بغير إذن). فرجعوا وثبت قنفذ الملعون. فقالوا: إن فاطمة قالت كذا وكذا فتحرجنا أن ندخل بيتها بغير إذن. فغضب عمر وقال: ما لنا وللنساء!ثم أمر أناسا حوله أن يحملوا الحطب فحملوا الحطب وحمل معهم عمر، فجعلوه حول منزل علي وفاطمة وابناهما عليهم السلام. ثم نادى عمر حتى أسمع عليا وفاطمة عليهما السلام: (والله لتخرجن يا علي ولتبايعن خليفة رسول الله وإلا أضرمت عليك بيتك النار)! فقالت فاطمة عليها السلام: يا عمر، ما لنا ولك؟ فقال: افتحي الباب وإلا أحرقنا عليكم بيتكم. فقالت: (يا عمر، أما تتقي الله تدخل على بيتي)؟ فأبى أن ينصرف. ودعا عمر بالنار فأضرمها في الباب ثم دفعه فدخل فاستقبلته فاطمة عليها السلام وصاحت: (يا أبتاه يا رسول الله) فرفع عمر السيف وهو في غمده فوجأ به جنبها فصرخت: (يا أبتاه) فرفع السوط فضرب به ذراعها فنادت: (يا رسول الله، لبئس ما خلفك أبو بكر وعمر). فوثب علي عليه السلام فأخذ بتلابيبه ثم نتره فصرعه ووجأ أنفه ورقبته وهم بقتله، فذكر قول رسول الله صلى الله عليه وآله وما أوصاه به، فقال: (والذي كرم محمدا بالنبوة - يا بن صهاك - لولا كتاب من الله سبق وعهد عهده إلي رسول الله صلى الله عليه وآله لعلمت إنك لا تدخل بيتي)».
کتاب سلیم بن قیس، پیشین، ص149_150، متن کتاب.
[4]. «لما يجب على غضب عمر وأضرم النار بباب علی وأحرقه ودخل فاستقبلته فاطمة و صاحت يا أبتاه و يا رسول الله فرفع عمر السيف وهو في غمده فوجأ به جنبها المبارك ورفع السوط فضرب به ضرعها فاصحت يا أبتاه فأخذ علي بتلابيب عمر وهزه ووجأ أنفه ورقبته». تفسیر روح المعانی، پیشین، ج2، ص120، متن کتاب؛/ و
«وزاد في الفرية فقال: إن عمر ضرب بطن فاطمة يوم البيعة حتى ألقت الجنين من بطنها، وكان يصبح: أحرقوا دارها بمن فيها، وما كان في الدار غير علی وفاطمة والحسن والحسين». الملل والنحل، أبو الفتح محمد بن عبد الكريم بن أبى بكر أحمد الشهرستانی(م548ق)، مؤسسة الحلبی، متن کتاب؛/ و
«ان ابابكر بعد ما اخذ البیعة لنفسه من الناس بالارحاب و السیف و القوة ارسل عمر، و قنفذاً و جماعة الى دار على و فاطمه(علیهما السلام) و جمع عمر الحطب على دار فاطمة(علیها السلام) و احرق باب الدار». الامامة و الخلافة (مؤتمر علماء بغداد فی الامامة و الخلافة)، مقاتل بن عطيه البکری ملقب به شبل الدولة(م505ق)، مقدمه: الدکتور حامد داود، بیروت، موسسة البلاغ، ص160_161.
Add new comment