خلاصہ: حسد بری صفت ہے جس کی جڑ کو پہچان کر اس سے پرہیز کرنی چاہیے۔
بعض برے صفات کو جب پرکھا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ ان کا تعلق انسان کی جہالت سے ہے۔ اس جہالت سے مراد لاعلمی اور نہ جاننا نہیں ہے، بلکہ وہ جہالت مراد ہے جو عقل کے مقابلے میں ہوتی ہے، ایسی جہالت تب ہوتی ہے جب آدمی کو علم ہو اور بات کو جانتا ہو، لیکن عقل سے کام نہ لے اور عقل کے خلاف قدم اٹھائے، حسد ایسی جہالت سے جنم لیتا ہے۔
اگر آدمی اپنی بیماری کی وجہ اور جڑ کو پہچان لے تو اس کی وجہ کا علاج کرے گا اور بیماری سے شفایاب ہوجائے گا۔ حسد کی بیماری کی جڑ انسان کی جہالت ہے، جب وہ اپنی عقل سے کام لے تو حسد ختم ہوجائے گا۔
جب حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی آپؑ کے پاس گندم لینے کے لئے کنعان سے مصر آئے اور آپؑ اس وقت عزیز مصر تھے تو آپؑ ناواقف شخص کے طور پر بھائیوں کے سامنے ظاہر ہوئے تو فرمایا: "هَلْ عَلِمْتُم مَّا فَعَلْتُم بِيُوسُفَ وَأَخِيهِ إِذْ أَنتُمْ جَاهِلُونَ"، (۱) "تمہیں کچھ معلوم ہے کہ تم نے یوسف اور اس کے (سگے) بھائی کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا جبکہ تم جاہل و نادان تھے؟"۔
یعنی تمہاری جہالت، اُس حسد کا باعث بنی اور وہ حسد سبب بنا کہ یوسف کو قتل کرنے کا منصوبہ بناؤ اور اسے شکنجہ دو اور کنویں میں ڈال دو۔
ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
Add new comment