غصہ ہر برائی کی کنجی، امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی حدیث کی تشریح

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: کچھ اخلاقی برائیاں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں جن سے دوسری برائیاں جنم لیتی ہیں، امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی حدیث کے مطابق، غصہ ہر برائی کی کنجی ہے۔ بنابریں اگر انسان غصہ کے اسباب اور مہلک نقصانات پر غور کرے اور روک تھام کے طریقوں کو اپنا لے تو وہ غصہ کرنے سے پرہیز کرے گا جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کئی برائیوں کے ارتکاب سے محفوظ رہے گا۔

غصہ ہر برائی کی کنجی، امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی حدیث کی تشریح

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تمہید: اہل بیت (علیہم السلام)، تمام انسانوں کی اللہ تعالی کی طرف ہدایت کرنے والے ہادی و راہنما ہیں، اسی لیے جو چیزیں باعث بنتی ہیں کہ انسان، انسانیت کے دائرہ سے نکل جائے یا جو کچھ اس کی ہدایت میں اضافہ ہونے کا باعث ہے، اس کو بیان فرماتے ہیں، صرف بیان نہیں بلکہ خود عمل پیرا بھی ہوتے ہیں، ان کے فرامین سے لوگوں کو ہدایت ملتی ہے اور ان کے عمل اور کردار سے گمراہ لوگ گمراہی سے رُخ موڑ کر ہدایت کی پُرامن وادی میں داخل ہوجاتے ہیں اور ہدایت یافتہ لوگوں کی ہدایت مزید مضبوط ہوجاتی ہے۔ اہل بیت (علیہم السلام) میں سے گیارہویں تاجدار امامت و ولایت حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام) ہیں جو آخری حجت الہی، حضرت امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے والد گرامی ہیں۔ آپ (علیہ السلام) کے دیگر اخلاقی وعظ و نصیحت کی طرح ایک نصیحت یہ ہے جس میں آپ (علیہ السلام) نے غصہ کا اتنا وسیع اور بڑا نقصان بتا دیا ہے۔ بعض اوقات انسان سمجھتا ہے کہ یہ چھوٹی سی حرکت ہے اس سے کوئی خاص نقصان نہیں ہوگا، لیکن ہوسکتا ہے کہ حقیقت اس کے برخلاف ہو اور ظاہری آنکھیں نقصان کی گہرائی کو نہ دیکھ سکیں، مگر جو شخصیت کائنات کے ماورا کا ادراک رکھتی ہو اور اعمال پر چشم دید گواہ ہو تو اس کا فرمان، قولِ فیصل اور اٹل کلام اور یقینی اثر کا حامل ہوگا۔ حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام) کا ارشاد گرامی ہے: "اَلغَضَبُ مِفتاحُ كُلِّ شَرٍّ[1]" "غصہ ہر برائی کی کنجی ہے"۔ بنابریں اگر انسان غصہ کے نقصانات پہچان لے اور اس کے روک تھام کے طریقے اپنا لے تو کتنی برائیوں کے ارتکاب سے محفوظ رہ جائے گا۔
غصہ کے فائدے، نقصانات اور لوگوں کی غصہ کے لحاظ سے قسمیں: غضب اور غصہ ان چار طاقتوں میں سے ایک طاقت ہے جو اللہ تعالی نے انسان کے وجود میں رکھی ہے، غصہ ایک ایسی نفسانی کیفیت ہے جو روحِ حیوانی (درندوں کی صفت) کے اندر سے باہر کی طرف حرکت کرنے کا باعث بنتی ہے تاکہ سامنے والے شخص پر غلبہ پاجائے اور اس سے انتقام لے۔ اس طاقت کے لحاظ سے لوگوں کی تین قسمیں ہیں:

پہلا گروہ: بہت غصہ کرنے والے لوگ جو عقل و شریعت کی حدود کو پامال کردیتے ہیں اور سامنے والے شخص کو گالی گلوچ اور مذمت کا نشانہ بنادیتے ہیں، یہ درندوں والی صفت کے حامل ہیں، واضح رہے کہ ایسی کیفیت میں انسان کا اختیار چھن جاتا ہے اور تقریباً بے اختیار شخص کی طرح مختلف کام، باتیں، حرکات اور فیصلے کرڈالتا ہے۔

دوسرا گروہ: تعادل اور توازن کو برقرار رکھنے والے لوگ جو عقل اور شریعت کے مطابق غصہ ہوتے ہیں، یعنی جہاں پر شریعت نے منع کیا ہے وہاں اپنے آپ کو روکے رہتے ہیں اور جہاں شریعت نے غصہ کرنے کا حکم دیا ہے وہاں غصہ ہوتے ہیں، ایسے لوگ شجاع ہیں اور بلندہمت اور پختہ ارادہ کے حامل ہیں۔

تیسرا گروہ: جن لوگوں میں بالکل غصہ نہیں پایا جاتا، یہ لوگ ڈرپوک اور بزدل ہیں جو اپنے اور اپنے سے متعلق افراد کے بارے میں لاپروا رہتے ہیں اور اپنی ناموس کے بارے میں بے غیرت ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اگر غصہ حد سے بڑھ جائے تو اسے "تهوّر" کہا جاتا ہے اور اگر حد سے کم ہوجائے تو اسے "جُبْن" یعنی بزدلی کہا جاتا ہے اور اگر متوازن حد میں رہے تو اسے شجاعت کہا جاتا ہے۔[2] علمائے اخلاق، لوگوں کو دین اور عقل کے دستورالعمل کی بنیاد پر، قوتِ غضبیہ میں اعتدال اور توازن برقرار رکھنے کو کہتے ہیں اور اس قوت میں توازن رکھنے کو بہت سارے اخلاقی اقدار کی جڑ جانتے ہیں اور متوازن حالت کو چھوڑ دینا اخلاقی برائیوں جیسے ڈر، بزدلی، احساسِ کمتری کا شکار ہونا، بے غیرتی، جلدبازی، بدگمانی، انتقام جوئی، بدمزاجی، عُجْب، تکبر، فخر کرنا، سنگدلی، حق کو چھپانا اور راز کو فاش کرنے کا باعث سمجھتے ہیں۔ واضح رہے کہ غضب، اخلاقی معنی میں، دشمنی، نفرت اور تلخ کلامی کو بھی شامل ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ سمجھے کہ جتنی طاقتیں اللہ تعالی نے انسان کے وجود میں رکھی ہیں، ان میں سے فلاں طاقت بے فائدہ ہے تو اس شخص نے یقیناً حکمتِ پروردگار کو نہیں سمجھتا اور اللہ کو حکیم نہیں جانتا حالانکہ انسان میں غصہ، اللہ تعالی کی ایک ایسی عظیم نعمت ہے جو انسان کے دین اور دنیا کی بقا کے لئے انتہائی ضروری ہے، جس کے ذریعے سے انسان، دین کے دشمنوں کے سامنے قیام کرکے دین اور معاشرے کو محفوظ کرتا ہے، سماج میں اللہ کی نافرمانی کو دیکھ کر امر بالمعروف  اور نہی عن المنکر کرتا ہے اور اپنے اوپر ناجائز حملہ کے مقابلے میں اپنے مال، جان اور ناموس کا تحفظ کرتا ہے، بعض اوقات غصہ کی حالت میں انسان کی طاقت کئی گنا بڑھ جاتی ہے تاکہ اپنی جان، مال اور عزت کا دفاع کرسکے۔ اس طاقت کے بڑھ جانے کی وجہ یہ ہے کہ اگر انسان کو ایسے خطرات لاحق ہوجائیں تو اس خطرہ کو دور کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ طاقت استعمال کرسکے اور تحفظ کرنے میں کامیاب ہوجائے۔ یہ غصے کے فائدہ مند پہلووں کی چند مثالیں تھیں، نیز قرآن میں بھی غصہ کے اچھے پہلو بیان ہوئے ہیں جیسے حضرت موسی (علیہ السلام) کا غضبناک ہونا جو بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی اور گمراہی کی وجہ سے تھا[3]، یہ قوت اس آیت "مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّہ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ[4]"، "محمد (ص) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار کے لئے سخت ترین اور آپس میں انتہائی رحمدل ہیں" کے مطابق مومنین کی اچھی صفات میں سے شمار کی گئی ہے البتہ آیت میں بیان کیے گئے شرائط و حدود کو مدنظر رکھتے ہوئے۔ بنابریں غضب، رب کریم کی ایسی نعمت ہے جس کے بغیر انسان کی دنیا اور آخرت دونوں برباد ہوجاتی ہیں، لیکن اگر انسان بے جا اور فضول غصہ کرے تو یہ غصہ کرنا بھی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ جب انسان غصہ کرتا ہے تو اس میں ایسی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے کہ اس کی زبان اس کی عقل سے آگے آگے چل رہی ہوتی ہے، یعنی سوچے سمجھے بغیر باتیں کردیتا ہے کیونکہ غصہ عقل کو ڈھانپ دیتا ہے یہاں تک کہ غصہ کے دوران عقل کی قوتِ فیصلہ کمزور ہوجاتی ہے اور وہ شخص اس وقت جو فیصلہ کرے گا وہ فیصلہ قرین عقل اور حقیقت پر مبنی نہیں ہوگا۔ غصہ کی حالت میں کسی کی وعظ و نصیحت کا اثر نہیں ہوتا، بلکہ بعض اوقات نصیحت، مزید غصہ کے اضافہ کا باعث بن جاتی ہے۔ غصہ میں افراط اور حد سے بڑھ جانا اسقدر نقصان دہ ہے کہ اس کیفیت میں انسان کسی قسم کی بھی غلطی کا ارتکاب کرسکتا ہے۔ لہذا حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "اَلغَضَبُ مِفتاحُ كُلِّ شَرٍّ[5]" "غصہ ہر برائی کی کنجی ہے"۔
غصہ کے اسباب: ۱۔ خود پسندی، مال پسندی، حکومت پسندی اور اس طرح کی پسند چیزیں جن کے حصول کے سامنے اگر کوئی چیز رکاوٹ بن جائے تو وہ شخص غصہ کے ساتھ ردعمل دکھائے گا۔ ۲۔ جہالت: جاہل شخص، جہالت کی وجہ سے غصہ اور اس کے نقصانات کو فائدہ مند سمجھتا ہے، جیسا کہ بعض اس کو شجاعت، مردانگی اور بڑا پن سمجھتے ہیں اور جہالت کی بنیاد پر ماضی میں کیے ہوئے غصہ کے بارے میں اپنی تعریفیں اور مدح سرائی کرتے ہیں۔ ۳۔ جلدبازی: انسان بعض پریشان کن خبریں سن کر جلدبازی کرتے ہوئے فیصلہ کردیتا ہے۔ ۴۔ تکبر اور عُجْب: متکبر اور خودپسند شخص کی توقع اور امیدیں بھی زیادہ ہوتی ہیں اور وہ چاہتا رہتا ہے کہ لوگ اسے خاص مقام اور اہمیت دیں ورنہ وہ غصہ میں آجاتا ہے۔ ۵۔ لالچ اور دنیا پرستی: لالچی انسان اپنے مفاد کے راستے میں چھوٹی سی رکاوٹ کو برداشت نہیں کرسکتا، لہذا رکاوٹ دیکھتے ہی غصہ کرتا ہے۔ ۶۔ نیز مذاق اڑانا، مذمت اور بحث کرنا، فخر کرنا، غصہ کے دیگر اسباب میں سے ہیں، جن کے پائے جانے سے انسان غصہ کی قید سے رہائی نہیں پاسکتا۔
غصہ کے مہلک نتائج: ۱۔ ہوسکتا ہے غصہ ابدی اور ہمیشگی بدبختی کا باعث بن جائے جیسے قتل یا دیگر جسمانی نقصانات۔ ۲۔ گالی گلوچ دینے پر زبان کا عادی ہوجانا۔ ۳۔ مسلمانوں کے رازوں کا فاش ہوجانا۔ ۴۔ چھپے ہوئے کینہ اور بغض کا ظاہر ہوجانا۔ ۵۔ ایمان کا تباہ و برباد ہوجانا کیونکہ ہوسکتا ہے کہ غصہ کرنے والا شخص اللہ تعالی کی حکمت، قسمت اور تدبیر سے ناراض ہو۔
غصہ کے روک تھام کے طریقے: ۱۔ کظم غیظ، یعنی غصہ پی جانا، جیسا کہ قرآن کریم میں متقین کی صفات میں سے بیان ہوا ہے۔[6] ۲۔ اللہ تعالی کا ذکر جیسے "اعوذ بالله من الشیطان الرجیم[7]، لاحول ولا قوة الا بالله[8]"۔ ۳۔ اپنے آپ کو کسی اہم کام میں مصروف کرلینا۔ ۴۔ غصہ کو اس کی متضاد صفت کے ذریعے روک لینا (جیسے تکبر کو انکساری کے ذریعہ، لالچ کو قناعت کے ذریعہ اور غصہ کو معاف کرنے اور نظرانداز کرنے کے ذریعہ)۔ ۵۔ جسم کی کیفیت کو بدل لینا (اگر شخص غصہ کی حالت میں کھڑا ہے تو بیٹھ جائے اور اگر بیٹھا ہے تو کھڑا ہوجائے)۔
نتیجہ: غصہ کے لحاظ سے لوگوں کی تین قسمیں کی جاسکتی ہیں، حد سے زیادہ، حد سے کم اور متوازن حد تک۔ پہلی اور دوسری لائقِ مذمت حالتیں ہیں اور تیسری جو توازن اور اعتدال پر مبنی ہے لائقِ تحسین ہے اور وہ بھی ان مقامات پر غصہ کرنا چاہیے جہاں شریعت نے حکم دیا ہے، روایات میں غصہ کی بہت مذمت ہوئی جس میں سے ایک حدیث حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی ہے کہ آپ (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ غصہ ہر برائی کی کنجی ہے۔ اگر انسان مذکورہ اسباب اور نقصانات پر غور کرتے ہوئے مذکورہ طریقوں سے غصہ کی روک تھام کرلے تو ظاہر ہے کہ کئی برائیوں کے ارتکاب سے محفوظ رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] الإمام الحسن العسكري عليه السلام سيرة وتاريخ، علی موسی الکعبی، ص175۔
[2] شفیعی مازندرانی، محمد؛ پرتوی از اخلاق اسلامی، ص278 سے ماخوذ۔
[3] دیکھیے سورہ طہ، آیات 92  سے 94 تک۔
[4] سورہ فتح، آیت 29۔
[5] الإمام الحسن العسكري عليه السلام سيرة وتاريخ، علی موسی الکعبی، ص175۔
[6] سورہ آل عمران، آیت 134۔
[7] سفینة البحار، باب غضب، بنقل از اخلاق در قرآن، ص 294.
[8] جامع الاحادیث، ج 13، ص 472، بنقل از اخلاق در قرآن، ص 294.

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 70