غیبت کے معنی و مفہوم کے بارے میں غلط تصورات کی اصلاح

Mon, 02/17/2020 - 17:45

خلاصہ: غیبت کے معنی و مفہوم کو صحیح طرح سمجھ لیا جائے تو معاشرے میں غیبت کم ہوجائے گی۔

غیبت کے معنی و مفہوم کے بارے میں غلط تصورات کی اصلاح

   اگر اخلاقی مسائل کے معنی و مفہوم کو صحیح طرح سے پہچان لیا جائے تو ان کے درمیان فرق کی بھی پہچان ہوجائے گی، ورنہ بعض اخلاقی مسائل دیگر اخلاقی مسائل سے خلط ملط ہوجائیں گے اور انسان برے کام کو صحیح اور صحیح کام کو برا سمجھ کر، اپنی اس غلط فہمی کے مطابق عمل کرے گا۔ مثلاً توجہ کرنی چاہیے کہ غیبت حقیقت میں سچی بات ہوتی ہے، لیکن کیونکہ وہ شخص راضی نہیں ہوتا کہ اس کی فلان بات یا فلان عیب کسی کو بتایا جائے تو غیبت کرنے والا جب اس کے بارے میں وہ سچی بات اس کی عدم موجودگی میں بتاتا ہے تو اس نے غیبت کی ہے۔
   غیبت کے اس معنی اور مفہوم کو نہ سمجھنے کا نتیجہ یہ ہے کہ جب کسی کو کہا جائے کہ یہ غیبت ہے، غیبت نہ کرو! تو وہ کہتا ہے کہ یہ سچ اور حقیقت ہے، میں کوئی جھوٹ بول رہا ہوں؟! ایسے جواب سے معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ آدمی غیبت کے معنی کو نہیں جانتا، وہ سمجھتا ہے کہ غیبت جھوٹی بات ہوتی ہے، جبکہ ایسا نہیں ہے، بلکہ غیبت سچی ہی بات ہوتی ہے۔ اگر جھوٹی بات ہو تو وہ الزام اور تہمت بن جاتی ہے جو ایک اور گناہ ہے۔ غیبت اور الزام کے درمیان اہم فرق یہی ہے۔ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "إنَّ مِن الغِيبَةِ أن تقولَ في أخيكَ ما سَتَرَهُ اللّه ُ علَيهِ"، "یقیناً غیبت میں سے ہے کہ اپن بھائی کے بارے میں ایسی بات کہو جسے اللہ نے اس کے لئے چھپایا ہوا ہے"۔ [وسائل الشیعہ، ج۸، ص۶۰۲]
   لہذا لوگوں کا ان کی عدم موجودگی میں عیب بتانا، اگرچہ بات سچی ہے، لیکن غیبت ہے اور غیبت سے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اور روایات میں اہل بیت (علیہم السلام)  نے منع کیا ہے۔
   غیبت کے معنی کے بارے میں ایک اور غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ جب کہا جائے کہ غیبت نہ کرو تو وہ آدمی کہتا ہے کہ میں تو اس کے سامنے بھی بتانے کو تیار ہوں! یہ بات بھی صحیح نہیں ہے، کیونکہ وہ اس شخص کی ایسی بات بتارہا ہے اور اس کے سامنے بھی بتانے کی جرات کررہا ہے جس پر وہ آدمی راضی نہیں ہے اور اگر وہ بات اس کا کوئی عیب ہے تو اگر اس کے سامنے کسی کو بتائے تو اس نے اس آدمی کی توہین کردی ہے، حالانکہ توہین کرنے سے احادیث میں منع کیا گیا ہے۔ جب کسی کا عیب اس کی عدم موجودگی میں یا اس کے سامنے دوسروں کو بتایا جائے تو اس کی توہین کی ہے اور کسی کے سامنے اس کے عیب کو ظاہر کرنے کی جرات کرنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ عیب کو ظاہر کرنے والے آدمی میں بے حیائی اور بے شرمی جیسی بری صفت کی جڑ اس قدر مضبوط ہوگئی ہے کہ وہ دوسروں کے عیب کو ان کے سامنے بھی بتانے سے شرم و حیا نہیں کرتا۔

* وسائل الشیعہ، شیخ حرّ عاملی، ج۸، ص۶۰۲۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
6 + 12 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 53