خلاصہ: حضرت علی(علیه السلام) نے فرمایا: خداوند متعال نے اپنے غضب کو گناہوں کے درمیان چھپا کر رکھا ہے اسی لئے کسی بھی گناہ کو چھوٹا مت سمجھو ہوسکتا ہے کہ تم جس گنا کو چھوٹا سمجھ رہے ہو اس کے اندر خدا کا غضب پوشیدہ ہو اور تم اس سے بے خبر ہو۔
محمد باقرمجلسى، بحار الأنوار، دار إحياء التراث العربي – بيروت، دوسری چاپ، ج۶۶، ص274، ۱۴۰۳ق.
بسم اللہ الرحمن الرحیم
علماۓ اخلاق نے معصومین(علیہم السلام) کی احادیث کی روشنی میں گناہوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہیں، گناہان کبیرہ اور گناہان صغیرہ، اور گناہان کبیرہ کونسے گناہ ہیں انہیں سمجھانے کے لئے علماء نے بعض معیار بھی بیان کئے گئے ہیں جس میں سے ایک یہ ہیں: ہر وہ گناہ جس کے بارے میں قرآن اور روایات میں خدا نے عذاب کا وعہہ کیا ہے وہ گناہ، گناہ کبیرہ ہے مثال کے طور پر قتل جس کے بارے میں قرآن اس طرح فرمارہا ہے: «وَ مَنْ یَقْتُل مُوْمِناً مُتَعَمِّداً فَجَزاوُهُ جَهَنَّمُ خَالِداً فِیها[سورۂ نساء، آیت: ۹۳] اور جو بھی کسی مومن کو قصدا قتل کردے گا اس کی جزا جہّنم ہے»۔
بعض علماء نے اس کے ساتھ ایک دوسری قید کا اٖضافہ فرمایا ہے وہ کہتے ہیں: گناہان کبیرہ وہ گناہ ہیں جس کے عوض میں عذاب کا وعدہ دیا گیا ہے یا کم از کم اس کے بارے میں تأکید کے ساتھ منع کیا گیا ہے کیونکہ قرآن اور روایات میں بعض گناہوں کے عوض میں عذاب کا وعدہ نہیں کیا گیا لیکن ان کے بارے میں تأکید کے ساتھ منع کیا گیا ہے جن میں سے ایک ربا(سود) ہے۔
بعض گناہ صغیرہ ہونے کے باوجود گناہ کبیرہ میں تبدیل ہو جاتے ہیں جن میں ایک: گناہ کو چھوٹا سمجھنا ہے جس کے بارے میں امام حسن عسکری(علیہ السلام) فرمارہے ہیں: «مِنَ الذُّنُوبِ الَّتى لا يُغْفَرُ قَوْلُ الرَّجُلِ: لَيْتَنى لا أُؤاخِذُ إلاّ بِهذا؛ وہ گناہ جو بخشے نہیں جائینگے اس گناہ کو انجام دینے والا شخص کہے: کاش مجھ پر فقط اسی گناہ کے عوض میں عذاب نازل ہوتا(یعنی گناہ اس کے نظر میں چھوٹا ہو)»[۱]۔
ہر انسان کی کیفیت اور حالت جب وہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو ایک چیسی نہیں ہوتی، بعض افراد گناہ کرنے کے بعد پشیمان ہوتے ہیں اور یہی پشیمانی ان کے گناہ کے بخشے جانے کا سبب بنتی ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب گناہ کرنے والا یہ جانتا ہو کہ اس نے خدا کے حکم کی نافرمانی کی ہے اور اس نافرمانی کی وجہ سے پشیمان ہوتا ہے جس کے بارے میں رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرمارہے ہیں: «النَّدمُ تَوبَهٌ؛ گناہ ہر نادم ہونا ہی توبہ ہے»[۲]، اور بعض انسان ایسے ہوتے ہیں جو گناہ کو گناہ نہیں سمجھتے بلکہ گناہ کرنے کے بعد اس کی توجیہ بھی کرتے ہیں، گناہ کو بہت چھوٹا سمجھتے ہیں جس کے بارے میں امام علی(علیہ السلام) فرمارہے ہیں:«أَشَدُّ الذُّنُوبِ مَا اسْتَهَانَ بِهِ صَاحِبُه؛ سب سے شدید گناہ وہ ہے جس کو کرنے والا اسے ہلکا سمجھے»[۳]۔
صحیح ہے کہ گناہوں کو آیات اور روایات میں کبیرہ اور صغیرہ قرار دیا گیا ہے لیکن ہر گناہ اس جھت سے کے خدا کی نافرمانی کا سبب بن رہا ہے اور آہستہ آہستہ یہی گناہ انسان کے دل کو کالا کردیتا ہے جس کے بعد وہ انسان کبھی بھی توبہ کرنے کے لائق نہیں رہتا اسی لئے ہمیں کسی بھی گناہ کو چھوٹا نہیں سمجھنا چاہئے۔
روایت میں وارد ہوا ہے کہ ایک دن شیطان سے جناب موسی(علیہ السلام) نے پوچھا: وہ کونسا گناہ ہے جب کوئی اسے انجام دیتا ہے تو تم اس پر مسلط ہوجاتے ہو؟ شیطان نے کہا: جب وہ غرور کرتا ہے اور اپنے اعمال کو زیادہ سمجھتا ہے، اور جب وہ گناہ کو چھوٹا سمجھنے لگتا ہے[۴]۔
نتیجه:
کسی بھی حال میں گناہ کو چھوٹا نہیں سمجھنا چاہئے کیونکہ اسی گناہ کو چھوٹا سمجھنے کی وجہ سے انسان اس کو بار بار انجام دینے لگتا ہے اور آخر میں وہ اس حد تک پہونچ جاتا ہے کہ وہ گناہان کبیرہ کو بھی انجام دینے سے پرہیز نہیں کرتا۔
____________________________________________________
حوالے:
[۱] فضل ابن حسن طبرسی، اعلام الوری باعلام الھدی، اسلامیہ، تھران، ۱۳۹۰ش۔
[۲] محمد باقرمجلسى، بحار الأنوار، دار إحياء التراث العربي – بيروت، دوسری چاپ، ج8، ص۳۵، ۱۴۰۳ق.
[۳] محمد بن حسین رضی، نھج البلاغہ(للصبحی صالح)، ھجرت، قم، ص۵۳۵، ۱۴۱۴۔
[۴] علی بن حسن بن فضل طبرسی، مشکاة الأنوار فی غرر الأخبار، ترجمه:عطارودی قوچانی،عطارد، تھران، ص ۲۹۵.
Add new comment