گناہ کو چھوٹا سمجھنا، امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی حدیث کی روشنی میں

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی شہادت کی مناسبت سے آپ (علیہ السلام) کی ایک حدیث جو گناہ کو چھوٹا سمجھنے کی مذمت کے سلسلہ میں ہے، اس کی اہل بیت (علیہم السلام) کی دیگر روایات کی روشنی میں تشریح کی جارہی ہے۔

گناہ کو چھوٹا سمجھنا، امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی حدیث کی روشنی میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام)، گناہ کو چھوٹا اور ہلکا سمجھنے کی مذمت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:  "مِن الذُّنوبِ الَّتِی لاتُغفَر: لَیتَنی لا أؤاخِذ إلا بِهذا"[1]، "معاف نہ ہونے والے گناہوں میں سے یہ ہے کہ (کہا جائے:) اے کاش! سوائے إس گناہ کے میرا مواخذہ نہ کیا جائے"۔  (یعنی گناہ کو چھوٹا اور کم نہیں سمجھنا چاہیے)۔
شیطان کا، انسان کو جال میں پھنسانے کا ایک حربہ یہ ہے کہ اس کی معنوی زندگی کے راستوں میں ایسے چھوٹے اور بے اہمیت جالیں بچھا دیتا ہے تاکہ اس سے غافل کرنے اور نظر انداز کروانے کے ذریعہ سے رفتہ رفتہ انسان کو جکڑ سکے۔ یہ چھوٹے اور بے اہمیت جال، وہی صغیرہ گناہ اور ظاہر میں چھوٹے گناہ ہیں کہ انسان ان کو شمار نہیں کرتا اور انہیں اتنی اہمیت نہیں دیتا، جبکہ اس بات سے غافل ہوجاتا ہے کہ ایسی باتوں، اعمال اور چھوٹے گناہوں کو نظرانداز کرنا، اس کے معنوی لحاظ سے گرجانے، سنگدلی اور دل کی تاریکی کا باعث بنتا ہے یہاں تک کہ آہستہ آہستہ اس کی نظر میں گناہ اتنے بے اہمیت ہو کر رہ جاتے ہیں کہ ارتکاب کے بعد اس کا دل بے حس ہوجاتا ہے اور گناہ کی برائی اور نقصان کو محسوس تک نہیں کرتا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی ہے: "إنّ إبليسَ رَضِيَ مِنكُم بالمُحَقَّراتِ[2]"، "بیشک ابلیس تمہارے  چھوٹے سمجھے گئے گناہوں کی وجہ سے تم پر راضی ہوتا ہے"۔
انسان کو چاہیے کہ چھوٹے گناہوں کے ارتکاب سے پرہیز کرے اور اگر خدانخواستہ ارتکاب کر بیٹھے تو جلد ہی پروردگار کی بارگاہ میں استغفار اور توبہ کرے اور اسے چھوٹا نہ سمجھے کیونکہ گناہ کو چھوٹا سمجھ لینا ہی گمراہی کی گہرائی میں گرنے کا راستہ ہے۔ آٹھویں تاجدار امامت حضرت امام علی ابن موسی الرضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "الصَّغائرُ مِنَ الذنوبِ طُرُقٌ إلى الكبائرِ ، ومَن لَم يَخَفِ اللّه َ في القَليلِ لَم يَخَفْهُ في الكثيرِ"[3]، "چھوٹے گناہ، بڑے گناہوں کی طرف راستے ہیں اور جو شخص تھوڑے میں اللہ سے نہ ڈرتا ہو، زیادہ میں بھی اس سے نہیں ڈرتا"۔
یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ کم گناہوں کے ارتکاب سے بھی پرہیز کیا جائے کیونکہ تھوڑے تھوڑے گناہ اکٹھا ہوکر زیادہ بن جاتے ہیں۔ جیسے انسان قرض کی کم مقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے قرض لے لیتا ہے اور ہر دفعہ کم مقدار کو کم سمجھ کر لیتا رہتا ہے، لیکن کچھ عرصہ کے بعد شمار کرتا ہے تو بھاری رقم اس کے ذمہ پڑچکی ہوتی ہے تو ایسے حال میں شدید پریشانی کا شکار ہوجاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جب قرض لیا کرتا تھا تو ہر مرتبہ کے قرض کو الگ الگ دیکھتا تھا، گذشتہ کے قرض سے ملا کر شمار نہیں کرتا تھا، اگر ملا کر شمار کرتا تو تھوڑے ہی وقت میں سارے قرض کے بوجھ کا ادراک کرتے ہوئے مزید قرض لینے سے پرہیز کرلیتا۔ حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "لاتَستَقِلُّوا قليلَ الذُّنوبِ، فإنّ قليلَ الذُّنوبِ يَجتَمِعُ حتّى يكونَ كثيراً "[4]، "قلیل گناہوں کو قلیل نہ سمجھو، کیونکہ قلیل گناہ اکٹھا ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ زیادہ ہوجاتے ہیں"۔
صرف گناہ کے چھوٹے ہونے کو نہیں دیکھنا چاہیے، بلکہ دیگر اسباب بھی ہیں جو چھوٹے گناہ کے بڑے ہونے کا باعث بنتے ہیں۔ جیسا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں: "لا تَنظُرُوا إلى صِغَرِ الذَّنبِ ولكنِ انظُرُوا إلى مَنِ اجتَرَأتُم"[5]، "گناہ کے چھوٹے ہونے کو نہ دیکھو بلکہ دیکھو کہ تم نے کس کی گستاخی کی ہے"۔ جو شخص گناہ کو چھوٹا سمجھتا ہے وہ یہ جان لے کہ وہ دو طرح کے نقصانات سے سامنا کررہا ہے: ایک یہ کہ گناہ کے ذریعہ سے اللہ تعالی کی بارگاہ میں گستاخی کررہا ہے اور دوسرا یہ کہ جب اس نے گناہ کو چھوٹا سمجھ لیا تو اس کے بعد بے پرواہ ہوکر اس گناہ کا بار بار ارتکاب کرے گا، اور جب اس چھوٹے سمجھے گئے گناہ کو بار بار دہرائے گا تو صغیرہ گناہ، دہرانے سے کبیرہ اور بڑے بن جاتے ہیں، لہذا آج صغیرہ گناہ کرنے والا کل کبیرہ گناہ کے گڑھے میں گر کر ہی رہے گا۔ نیز حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "أعظَمُ الذُّنوبِ عِندَ اللّه ِ سبحانَهُ ذَنبٌ صَغُرَ عِندَ صاحِبِهِ"[6]،  "اللہ سبحانہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ وہ گناہ ہے جو گنہگار کی نظر میں چھوٹا سمجھا گیا ہو"۔ اگر کوئی شخص ہماری طرف پتھر پھینکے، پھر پشیمان ہوجائے اور معذرت خواہی کرلے تو ہوسکتا ہے ہم اسے معاف کردیں، لیکن اگر وہ ہماری طرف چھوٹا سا پتھر پھینکے اور جب ہم اس پر اعتراض کریں تو وہ کہے کہ یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے، تو ہم اسے شاید معاف نہ کریں، کیونکہ اس کی اس بات اور سوچ نے اس کے غرور اور تکبر سے جنم لیا ہے اور وہ گستاخی کرنے کے باوجود گستاخی کو گستاخی ہی نہیں سمجھ رہا۔
غور طلب بات ہے کہ ہمیں گناہوں کے نقصانات کا علم نہیں ہے، تو کیسے انسان کسی گناہ کو چھوٹا سمجھ سکتا ہے، کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ایک شمع کی آگ سے جنگل کے ایک درخت کو آگ لگ کر دوسرے درختوں تک پہنچتے ہوئے سارے جنگل کو جلا کر راکھ کرسکتی ہے؟!امام المتقین حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "لَا يَصْغَرُ مَا يَضُرُّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ [7]"، "جو چیز قیامت کے دن نقصان پہنچائے، چھوٹی نہیں ہے"۔ اگر بعض گناہوں کے نقصانات، دوسرے گناہوں سے زیادہ ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسرے گناہوں کا کوئی نقصان نہیں ہے، لہذا کسی گناہ کو اگرچہ وہ کبیرہ گناہوں میں سے نہ بھی ہو تو اسے چھوٹا نہیں سمجھنا چاہیے، کیونکہ جس کام کو اللہ تعالی نے حرام یا واجب کردیا ہے، اس کی خلاف ورزی کرنا، پروردگار کے غضب اور جہنم کے لائق بننے کا باعث بنتا ہے اور جو چیز غضب الہی اور جہنم کے استحقاق کا باعث بنے وہ ہرگز کم اور چھوٹی نہیں ہے۔
نتیجہ: حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی اس حدیث جس میں گناہ کو چھوٹا اور ہلکا سمجھنے کی مذمت ہوئی ہے، اس جیسی احادیث دیگر معصومین (علیہم السلام) سے بھی نقل ہوئی ہیں جو گناہ کو چھوٹا اور ہلکا سمجھنے کی مذمت کے بارےمیں ہیں۔ ان روایات کے مطالعہ سے واضح ہوجاتا ہے کہ انسان کسی گناہ کو چھوٹا مت سمجھے ورنہ وہی دہرانے کی وجہ سے بڑا بن جائے گا اور انسان زیادہ گمراہی میں گھِر جائے گا۔ جیسا کہ آجکل کی انٹرنیٹ کی دنیا میں ہوسکتا ہے آدمی کسی سائٹ کو کھولنے اور دیکھنے کو معمولی کام سمجھتے ہوئے غیرمحرم پر لذت کی نگاہ سے نظر ڈال لے، لیکن اسے یقین ماننا چاہیے کہ یہ نظر اسی پہلی نظر پر ہی ختم نہیں ہوجائے گی، بلکہ بڑھتی ہوئی دیگر گناہوں کے بھنور میں ڈال دے گی یہاں تک کہ انسان ائمہ اطہار (علیہم السلام) کی بصیرت افروز تعلیمات سے متاثر نہیں ہوگا اور رفتہ رفتہ بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بھی تیار ہوجائے گا، کیونکہ اس نے اہل بیت (علیہم السلام) کے فرامین کو نظرانداز کرتے ہوئے پہلے گناہ کو چھوٹا اور معمولی سمجھا تھا اورکیونکہ معصومین (علیہم السلام) کا کلام حق ہے اور ہو ہی نہیں سکتا کہ جو یہ حضرات ارشاد فرمائیں اس کے خلاف وقوع پذیر ہوجائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] تحف العقول، ص 517۔
[2] بحارالأنوار : 73/363/93
[3] بحار الأنوار : 73/353/55
[4] أمالي شیخ مفيد : 8 / 157.
[5] بحارالأنوار : 6/168/77.
[6] غرر الحكم : 3141 .
[7] وسائل الشيعه، ج 15، ص 312۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 19