خلاصہ: اس مضمون میں امام حسین(علیہ السلام) کی زیارت کےثواب اور اور اس کی فضیلت کے بارے میں روایتین مختصر توضیح کے ساتھ بیان کیا گئی ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
امام حسین(علیہ السلام) کا چہلم جو اس زور اور شور کے ساتھ منایا جارہا ہے اور لوگ جو چہلم کی طرف متوجہ ہوئے ہیں اس میں کسی دینی ثقافتی ادارے کی تبلیغات کا ہاتھ نہیں ہے بلکہ یہ اس حدیث کا ترجمان ہے جو رسول خدا(صلی اللہ علی و آلہ و سلم) نے فرمایا ہے: حسین(علیہ السلام) کے خون میں ایسی حرارت ہے جو ہرگز ٹھنڈی نہیں ہوگی[۱]،چھلم کا یہ اجتماع اسی حدیث کا ایک مصداق ہے۔
امام حسین(علیہ السلام) سے محبت، ولاء، عقیدت اور امام حسین(علیہ السلام) میں موجود قوتِ جاذبہ کو سمجھنا کسی بھی انسان کے بس میں نہیں ہے اگر ہم کامیابی، نجات اور سعادت چاہتے ہیں تو ہم کو امام حسین(علیہ السلام) کے ساتھ مکمل طور پر متمسک ہونا ہوگا اور اپنی نسلوں کو بھی حسینی بنانا ہوگا۔ آج بوڑھا، جوان، مرد، عورت، بچہ ہر ایک کو ہم سینکڑوں کلو میٹر کا سفر پیدل طے کر کے امام حسین(علیہ السلام)کی طرف آتا دیکھ رہے ہیں بہت سے لوگ اپنے شیر خوار اور چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ کربلا آتے ہیں اور یہ چیز ان بچوں کے والدین کی حسینی عقیدت کی بلندی پر دلالت کرتی ہے کہ وہ ابھی سے اپنی نسل کو حسینی بنانے کے لیے تربیت دے رہے ہیں۔ جو بھی امام حسین(علیہ السلام) کی زیارت کے لیے آتا ہے اس کو ہر قدم کے بدلے نہ جانے کتنی نیکیوں اور کتنے حج و عمرہ کا ثواب ملتا ہے اور اس کے نہ جانے کتنے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور ایک خاص روحانی فائدہ اس کو حاصل ہوتا ہے، امام حسن عسکری(علیہ السلام) کی حدیث کی بنا روشنی میں چہلم کی زیارت، مؤمن کی پانچ علامتوں میں سے ایک ہے[۲]۔
امام صادق(علیہ السلام) پیدل زیارت کرنے والے کے لئے فرمارہے ہیں: جو شخص پیدل چلنے کے بعد امام حسین(علیہ السلام) کے حرم کی زیارت کرنے کے بعد جب لوٹتا ہے تو فرشتے اس کے ساتھ مصافحہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو کچھ اب تک تو نے کیا سب بخش دیا گیا ہے اپنی زندگی کو از سر نو شروع کر[۳]۔
امام حسین(علیہ السلام) نے مظلوم کو یہ جرأت دی ہے کہ وہ اس ظلمت سے نکل کر ظالم کے ظلم سے نجات حاصل کرے اور یہ سلسلہ یوں ہی باقی رہے گا یہاں تک کہ کربلا کا اصل وارث ظہور فرمائے گا اور کربلا کے انقلاب اور مشن کو پوری دنیا میں نافذ کرے گا اور یہ کربلا پوری دنیا کے لیے مشعلِ ہدایت بنا رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱]۔«َ إِنَ لِقَتْلِ الْحُسَيْنِ حَرَارَةً فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ لَا تَبْرُدُ أَبَد»، حسين بن محمد تقى نورى، مستدرك الوسائل و مستنبط المسائل،مؤسسة آل البيت عليهم السلام - قم،ج۱۰، ص۲۱۸، ۱۴۰۸ق.
[۲]۔«عَلَامَاتُ الْمُؤْمِنِ خَمْسٌ صَلَاةُ الْخَمْسِينَ وَ زِيَارَةُ الْأَرْبَعِينَ وَ التَّخَتُّمُ فِي الْيَمِينِ وَ تَعْفِيرُ الْجَبِينِ وَ الْجَهْرُ بِبِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ».محمد بن الحسن طوسى، تهذيب الأحكام (تحقيق خرسان)، دار الكتب الإسلاميه - تهران،ج۶، ص۵۲، ۱۴۰۷ق.
[۳]۔ «يَا حُسَيْنُ مَنْ خَرَجَ مِنْ مَنْزِلِهِ يُرِيدُ زِيَارَةَ قَبْرِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ ع إِنْ كَانَ مَاشِياً كُتِبَ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ حَسَنَةٌ وَ مُحِيَ عَنْهُ سَيِّئَةٌ حَتَّى إِذَا صَارَ فِي الْحَيْرِ كَتَبَهُ اللَّهُ مِنَ الْمُفْلِحِينَ الْمُنْجِحِينَ حَتَّى إِذَا قَضَى مَنَاسِكَهُ كَتَبَهُ اللَّهُ مِنَ الْفَائِزِينَ حَتَّى إِذَا أَرَادَ الِانْصِرَافَ أَتَاهُ مَلَكٌ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص يُقْرِئُكَ السَّلَامَ وَ يَقُولُ لَكَ اسْتَأْنِفِ الْعَمَلَ فَقَدْ غُفِرَ لَكَ مَا مَضَى»، محمد باقرمجلسى، بحار الأنوارالجامعة، دار إحياء التراث العربي، ج۹۸،ص۷۲، ۱۴۰۳ ق.
Add new comment