خلاصہ: انسان دنیا میں زندگی کرتے ہوئے اسقدر اس زندگی میں مصروف ہوجاتا ہے کہ جیسے مقصد صرف اسی دنیا میں رہنا ہے اور اس کی ساری زندگی اسی دنیا میں محدود ہے، جبکہ ایسا نہیں۔
اسلام کی نظر میں انسان کی زندگی، دنیاوی قلیل سی زندگی میں محدود نہیں ہے۔ قرآن کریم انسان کے لئے ابدی زندگی بتاتا ہے جس کا اصلی حصہ دنیا سے گزرنے کے بعد وقوع پذیر ہوگا اور دنیاوی زندگی اس کے مقابلہ میں بہت ہی کم شمار ہوتی ہے۔ سورہ مومنون کی آیت ۱۱۴ میں ارشاد الٰہی ہے: "قَالَ إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا قَلِيلاً لَّوْ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ"، "ارشاد ہوگا: تم نہیں رہے۔ مگر تھوڑا عرصہ کاش تم نے یہ بات سمجھی ہوتی"۔
رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں: "مَا الدُّنْيَا في الآخِرَةِ إِلاَّ مِثْلُ مَا يَجْعَلُ أَحدُكُمْ أُصْبُعَهُ في الْيَمِّ فَلْيَنْظُرْ بِمَ يَرْجِعُ"، "دنیا، آخرت کے مقابلہ میں ایسے ہی ہے جیسے تم میں سے ایک شخص اپنی انگلی کو دریا میں رکھے تو اسے دیکھنا چاہیے کہ کتنا (پانی انگلی پر) آتا ہے"۔ [بحارالانوار، ج۷۰، ص۱۱۹]
قرآن کریم نے انسان کی زندگی کے مراحل کو ذکر کرتے ہوئے اسی دنیا کے مراحل تک بات کو روکا نہیں، بلکہ ان سب کے بعد دو دوسرے مراحل بھی بتائے ہیں، سورہ مومنون کی آیات ۱۵، ۱۶ میں ارشاد الٰہی ہے: "ثُمَّ إِنَّكُم بَعْدَ ذَٰلِكَ لَمَيِّتُونَ . ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تُبْعَثُونَ"، "پھر تم اس کے بعد ضرور مرنے والے ہو۔ پھر اس کے بعد تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤگے"۔
آخرت کی زندگی قرآن کریم کی نظر میں ایسی ضرورت ہے جس کے بغیر انسان کی خلقت فضول ہے اور انسان مقصدِ خلقت تک نہیں پہنچتا، سورہ مومنون کی آیت ۱۱۵ میں ارشاد الٰہی ہورہا ہے: "أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ"، "کیا تمہارا یہ خیال تھا کہ ہم نے تمہیں بلا مقصد پیدا کیا ہے اور تم نے کبھی ہماری طرف پلٹ کر نہیں آنا ہے؟"۔
حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) اپنی وصیت میں حضرت امام حسن مجتبی (علیہ السلام) سے فرماتے ہیں: "وَاعْلَمْ يَا بُنَيَّ أَنَّكَ إِنَّمَا خُلِقْتَ لِلاْخِرَةِ لاَ لِلدُّنْيَا"، "جان لو اے میرا بیٹا کہ تم صرف آخرت کے لئے خلق ہوئے ہو نہ کہ دنیا کے لئے"۔
* ترجمہ آیات از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
Add new comment