آخرت
خلاصہ: انسان کو بیکار پیدا نہیں کیا، اور اس کی خلقت کا مقصد خدا کی عبادت ہے۔
امام علی نقی علیہ السلام:
«إِنَّ اللّهَ جَعَلَ الدُّنْيا دارَ بَلْوى وَ الاْخِرَةَ دارَ عُقبى...»
بے شک اللہ نے دنیا کو امتحان کی جگہ اور آخرت کو نتیجہ کی جگہ قرار دیا ہے۔
[تحف العقول: 483]
خلاصہ: انسان دنیا میں زندگی کرتے ہوئے اسقدر اس زندگی میں مصروف ہوجاتا ہے کہ جیسے مقصد صرف اسی دنیا میں رہنا ہے اور اس کی ساری زندگی اسی دنیا میں محدود ہے، جبکہ ایسا نہیں۔
خلاصہ: دنیا میں سفر کرنے اور آخرت کے سفر میں ایک اہم فرق پایا جاتا ہے، اسے اس مضمون میں بیان کیا جارہا ہے۔
خلاصہ: اللہ تعالی کے دین اور احکام پر عمل کرنے والے آخرت میں کامیاب ہیں اور عمل نہ کرنے والے آخرت میں ناکام ہیں۔
وَمَا هَـٰذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ ۚ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ؛اور یہ زندگانی دنیا ایک کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں ہے اور آخرت کا گھر ہمیشہ کی زندگی کا مرکز ہے اگر یہ لوگ کچھ جانتے اور سمجھتے ہوں[سورة العنكبوت ۶۴]
خلاصہ: عموماً لوگ موت کی یاد سے غفلت کرتے ہیں، جبکہ موت کی یاد میں مختلف برکتیں پائی جاتی ہیں، جب انسان ان برکتوں کی طرف غور کرے تو موت کو یاد کرنے کی اہمیت کو سمجھ جائے گا۔
قَالَ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ : مَا اَلدُّنْيَا فِي اَلْآخِرَةِ إِلاَّ مِثْلُ مَا يَجْعَلُ أَحَدُكُمْ إِصْبَعَهُ فِي اَلْيَمِّ فَلْيَنْظُرْ بِمَ يَرْجِعُ(بحار الأنوار, ج 70 , ص 119) دنیا ،آخرت کے مقابلے میں ایسی ہے جیسے کہ کوئی شخص دریا میں انگلی ڈالے اور پھر دیکھے کہ انگلی کیا چیز لے کر واپس ہوئی۔ (یعنی پانی کا کتنا حصہ انگلی میں لگا)۔۔۔۔۔ہم دنیا میں مگن ہیں اور آخرت کی لگن اس بھاگتی دوڑتی دنیا میں کہیں گم سی گئی ہے جب کہ ہماری منزل مقصود وہی ہے، اسی تناظر میں بطور تذکر مندرجہ ذیل مختصر تحریر ملاحظہ فرمائیں۔ رب العزت ہم سب کی عاقبت بخیر فرمائے۔آمین
خلاصہ: حضرت عسیٰ(علیہ السلام) دنیا اور آخرت میں صاحبِ وجاہت اور مقربین بارگاہ الٰہی میں سے ہے۔
خلاصہ:انسان تکبر سے دوری کی بناء پر خدا کی سب سے زیادہ اچھی مخلوق(اشرف المخلوقات) بن سکتا ہے۔