خطبہ شعبانیہ ماہ رمضان المبارک کی شان و عظمت کے سلسلہ میں ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ماہ رمضان سے پہلے، ماہ شعبان کے آخری جمعہ کو ارشاد فرمایا۔ اس خطبہ کو حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) نے اپنے آباء و اجداد سے نقل کرتے ہوئے حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے۔ ان سلسلہ مضامین میں اس خطبہ کے فقروں کی تشریح بیان کی جارہی ہے، جن میں سے یہ ساتواں مضمون ہے۔ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں کہ "وَاذكُروا بِجوعِكُم وعَطَشِكُم فيهِ جوعَ يَومِ القِيامَةِ وعَطَشَهُ"[1]، "اور اس (مہینہ) میں اپنی بھوک اور پیاس کے ذریعہ قیامت کے دن کی بھوک اور پیاس کو یاد کرو"۔
تشریح
انسان جہالت کی وجہ سے دنیا کے بہت سارے امور سے غافل ہے اور یہی باعث بنتا ہے کہ خیر و شر کی پہچان کرنے میں غلطی میں پڑجائے۔ طبعی طور پر روزہ کے دو اثر بھوک اور پیاس ہیں اور انسان اسے مشکل اور تکلیف نہ سمجھ لے اور مسلسل خاص راستوں کی تلاش میں نہ رہے کہ روزہ سے جنم لینے والی بھوک اور پیاس کو ختم کرنے کی کوشش کرے، کیونکہ روزہ کا ایک مقصد یہ قرار دیا گیا ہے کہ ہم روزہ کے ذریعہ مقررہ مقدار تک بھوک اور پیاس کی کیفیت محسوس کریں اور اس میں ہمارے لیے خیر اور نصیحت ہے نہ کہ شر اور تکلیف۔ لہذا رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) مذکورہ بالا فقرہ میں فرماتے ہیں: "اور اس (مہینہ) میں اپنی بھوک اور پیاس کے ذریعہ قیامت کے دن کی بھوک اور پیاس کو یاد کرو"۔ جب روزہ کی وجہ سے محسوس ہونے والی بھوک اور پیاس سے مقصد یہ ہے کہ قیامت کی بھوک اور پیاس کو یاد کیا جائے تو بھوک اور پیاس محسوس ہوتے ہوئے اس سے فرار کا راستہ تلاش نہیں کرنا چاہیے، بلکہ مقصد کو پورا کرنا چاہیے، یعنی قیامت کی بھوک اور پیاس کے بارے میں انسان سوچنے لگ جائے کہ دنیا میں تو افطار کے وقت تک ہی صبر کرنا ہے اس کے بعد کھانے پینے کی اجازت ہے، لیکن قیامت کے دن بھوکا اور پیاسا انسان اپنی بھوک اور پیاس کو کیسے بجھا سکے گا، یقیناً اُس دن اس کا کوئی حل تلاش نہیں کیاجاسکتا، بلکہ دنیا میں ہی اس کا حل ڈھونڈنا چاہیے، اللہ کے حکم کی فرمانبردای، واجبات و محرمات کی پابندی، انسان کو قیامت کی بھوک اور پیاس سے بچا سکتی ہے۔
یہ سوچ کب پیدا ہوتی ہے؟ قیامت کی وہ بھوک اور پیاس جس کا دنیاوی بھوک اور پیاس سے موازنہ ہی نہیں کیا جاسکتا، انسان کب قیامت کی بھوک اور پیاس کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے؟ یقیناً جب روزہ کی حالت میں بھوک اور پیاس محسوس ہورہی ہو، تب انسان اِس بھوک اور پیاس سے زیادہ شدید بھوک اور پیاس کی تکلیف کو یاد کرکے اس کا حل سوچتا ہے۔
جیسے روزہ دار روزہ کی حالت میں دن کے دوران افطاری تیار کرنے میں مصروف رہتا ہے، اسی طرح روزہ دار کو چاہیے کہ دنیا میں روزہ کی حالت میں قیامت کی بھوک اور پیاس کا سامان تیار کرنے کی فکر میں پڑا رہے، اور اس فکر کا نتیجہ یہی ہے کہ اللہ کے حکم پر عمل کرنے کا پختہ ارادہ کرلے اور ارادہ کو عمل میں ڈھال کر، دن رات قرآن و اہل بیت (علیہم السلام) کی روشنی میں حکمِ پروردگار کو بجالانے میں مصروف رہے تا کہ قیامت کی بھوک اور پیاس سے نجات پاجائے۔
بھوک اور پیاس اگر ان حدود میں ہو جو اسلام نے بتائی ہیں اور طبعی طور پر پیدا ہو تو کامیابی اور کمالات تک پہنچنے کی کنجی ہے۔ اصولاً وہ چیز قیمتی ہے جو ایک طرف سے اختیاری ہو اور قصد و نیت کے ساتھ بجالائی جائے اور دوسری طرف سے توازن اور اعتدال پر ہو، اس میں نہ افراط ہو، نہ تفریط (یعنی نہ حد سے زیادہ ہو نہ حد سے کم ہو)۔ روزہ ایسی چیز ہے جس میں شرعی ریاضت اور مطلوب بھوک اور پیاس تک پہنچا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک طرف سے سحر اور افطار کے وقت کھانے کے ذریعہ اور ایک دن کے روزہ کو دوسرے دن کے روزہ سے بھوک اور پیاس کے ساتھ ملانے کی ممانعت کے ذریعہ تفریط اور حد سے گھٹانے کا راستہ بند ہوجاتا ہے اور دوسری طرف سے پیٹ بھر کر کھانے اور ذریعۂ معاش کے لئے روزمرّہ ki محنت و کوشش کرنے سے افراط اور حد سے بڑھانے کا راستہ بند ہوجاتا ہے۔
جب انسان دیکھتا ہے کہ اس نے بھوک اور پیاس کو اپنے اختیار سے انتخاب کیا ہے نہ کہ کھانا اور پانی کے نہ ہونے کی وجہ سے بھوک اور پیاس کو برداشت کر رہا ہے، یعنی اپنے اختیار کی طاقت کی بنیاد پر روزہ رکھے ہوئے ہے تو ایسی حالت میں اس کے لئے اس بات کو سمجھنا زیادہ آسان ہوجاتا ہے کہ قیامت کے دن جب بھوک اور پیاس غیراختیاری طور پر اور بہت شدت سے ہوگی جہاں برداشت کی بات ہی نہیں، بلکہ برداشت سے بالکل باہر ہوگی تو اُس وقت اُسے بجھایا بھی نہیں جاسکتا، لہذا روزہ کی بھوک اور پیاس انسان کو پختہ ارادہ کرنے پر آمادہ کردیتی ہے کہ ابھی سے قیامت کے دن کی بھوک اور پیاس کا انتظام کرنا شروع کردے اور اس میں کسی قسم کی غفلت، سستی اور کوتاہی نہ برتے۔
یہ بات بھی غور طلب ہے کہ انسان کو روزہ رکھنا چاہیے نہ یہ کہ صرف بھوکا رہے۔ روزہ انسان کے لئے ایک طرح کی روحانی ترقی ہے جو اللہ کی عبودیت اور بندگی کرنے سے حاصل ہوتی ہے، لیکن بھوکا رہنا جسمانی عمل ہے۔ روزہ دار، روحانی صعود اور بلندی کو مدنظر رکھتا ہے جو جسم کی بھوک کے ذریعہ سے پیدا ہوتی ہے۔
انسان جب ماہ رمضان میں روزہ رکھتا ہے اور بھوک اور پیاس محسوس کرتا ہے تو روزہ اس کے لئے ذکر اور یاد بننا چاہیے، قیامت کے دن کی بھوک اور پیاس کو یاد کرے، کیونکہ قیامت کے دن انسان کی روح بھوکی اور پیاسی ہوگی نہ کہ اس کا پیٹ۔ انسان کا دل، اللہ کی یاد سے سیر ہوتا ہے، لیکن جسم کھانے سے سیر ہوتا ہے۔ اگرہم نے دنیا میں اپنے دل کو اللہ کے ذکر اور یاد کے ذریعہ سیر نہ کیا ہو تو قیامت میں بھوک اور پیاس محسوس کریں گے۔
دنیا میں جب جھوٹی بھوک انسان کو محسوس ہو تو اگر انسان اللہ کی یاد کو دل پر غالب کرسکے تو وہ بھوک ہٹ جائے گی۔ ماہ رمضان میں انسان کے روحانی پہلو کے طاقتور ہونے کی وجہ سے، بھوک کا خاص غلبہ نہیں ہوتا اور انسان کا دل اس کی طرف توجہ نہیں کرتا۔
قیامت کے دن کی بھوک اور پیاس ایک ایسا قانون ہے جس کے لئے کوئی سوچ بیچار کرنی چاہیے۔ جب انسان روزہ کی حالت میں ہے تو اسے چاہیے کہ اللہ کی یاد کے ذریعہ، قیامت کی بھوک اور پیاس کو یاد کرے اور اِس بھوک اور پیاس کے ذریعہ ایسی کیفیت پیدا کرنی چاہیے کہ قیامت کی بھوک اور پیاس جو روحانی ہے نہ کہ جسمانی، قابل برداشت بن جائے۔ اگر انسان نے اب قیامت کی بھوک اور پیاس کے لئے کوئی سوچ بیچار نہ کی تو اس دن شدید تکلیف میں دوچار ہوگا کیونکہ اس دن انسان کی جان بھوکی اور پیاسی ہوگی اور صرف خدا کی یاد اور روحانی خوراک کے ذریعہ سے قیامت کی بھوک اور پیاس بجھتی ہے۔ میدان محشر میں جس کے دل میں اللہ کی یاد کا ملکہ نہیں ہوگا وہ بھوک اور پیاس سے چلّائے گا۔
قیامت کی بھوک اور پیاس روایات کی روشنی میں: حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "قَدْ أَلْجَمَهُمُ الْعَرَقُ"[2]، "بیشک پسینہ ان (کے منہ) کو لگام لگا دے گا"۔
نبی اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: "ما مِن مُؤمِنٍ يَصومُ شَهرَ رَمَضانَ احتِساباً إلاّ أوجَبَ اللّهُ ـ تَبارَكَ وتَعالى ـ لَهُ سَبعَ خِصالٍ :... وَالخامِسَةُ: أمانٌ مِنَ الجوعِ وَالعَطَشِ يَومَ القِيامَةِ"[3]، "جو مومن اللہ کی خاطر ماہ رمضان کے روزے رکھے اللہ تبارک و تعالی اس کے لئے سات صفات کو واجب کردیتا ہے: ... پانچویں: قیامت کے دن کی بھوک اور پیاس سے امان"۔
رسول خدا (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) ارشاد فرماتے ہیں: "لِلجَنَّةِ بابٌ يُقالُ لَها : الرَّيّانُ، لا يُفتَحُ ذَلِكَ إِلى يَومِ القِيامَةِ ، ثُمَّ يُفتَحُ لِلصّائِمِينَ وَالصّائِماتِ مِن اُمَّةِ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه و آله ، ثُمَّ يُنادِي رِضوانُ خازِنُ الجَنَّةِ : يا اُمَّةَ مُحَمَّدٍ ، هَلُمُّوا إِلى الرَّيّانِ . فَتَدخُلُ اُمَّتِي فِي ذَلِكَ البابِ إِلى الجَنَّةِ"، "جنت کا ایک دروازہ ہے جیسے رَیّان (سیراب) کہا جاتا ہے، وہ قیامت کے دن تک نہیں کھلے گا، پھر محمد (صلّی اللہ علیہ وآلہ) کی امت کے روزہ دار مردوں اور عورتوں کے لئے کھلے گا، پھر جنت کا خازن رضوان ندا دے گا: اے محمد کی امت، رَیّان (سیراب) کی طرف آؤ، تو میری امت اُس دروازہ سے جنت میں داخل ہوگی"۔
نتیجہ: اللہ تعالی کی یاد سے انسان کو معنوی طور پر سیراب کیا جاتا ہے اور اللہ کی یاد کا تقاضا یہ ہے کہ سوچنے کے ساتھ ساتھ عمل بھی بجالایا جائے۔ لہذا روزہ دار جب روزہ کی حالت میں بھوک اور پیاس محسوس کرتا ہے تو اسے قیامت کے دن کی بھوک اور پیاس یاد کرتے ہوئے کوشش کرنا چاہیے کہ احکامِ الہی پر عمل پیرا ہو کر آخرت کا سامان تیار کرے تا کہ وہاں کی شدید بھوک اور پیاس میں مبتلا نہ ہو، جبکہ دنیا میں جسم بھوکا اور پیاسا ہوتا ہے، لیکن قیامت کے دن انسان کی روح بھوکی اور پیاسی ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] عيون أخبار الرضا (علیہ السلام)، شیخ صدوق، ج2، ص265.
[2] نہج البلاغہ، خطبہ 101۔
[3] بحارالانوار، علامہ مجلسی، ج93، ص369۔
خلاصہ: خطبہ شعبانیہ کی تشریح کرتے ہوئے یہ فقرہ پر گفتگو کی گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ماہ رمضان میں روزہ دار جب بھوک اور پیاس محسوس کرتا ہے تو اسے قیامت کی بھوک اور پیاس یاد کرنی چاہیے۔ اس یاد کا تقاضا یہ ہے کہ قیامت کے لئے نیک اعمال، قرآن و اہل بیت (علیہم السلام) کی تعلیمات کی روشنی میں بجالائے جائیں اور حکم پروردگار کی تعمیل کرتے ہوئے اس شدید بھوک اور پیاس سے نجات حاصل کی جائے۔
Add new comment