خلاصہ: امام علی(علیہ السلام) : میں نے جنت جیسا کوئی مطلوب نہیں دیکھا ہے جس کے طلبگار سب سورہے ہیں اور جھنم جیسا کوئی خطرہ نہیں دیکھا ہے جس سے بھاگنے والے سب خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔
حضرت علی(علیہ السلام) دنیا، موت، عمل ان سب کی حقیقیت کو اسطرح بیان فرمارہے ہیں: یہ دنیا پیٹھ پھیر چکی ہے اور اس نے اپنے وداع کا اعلان کردیا ہے اور آخرت سامنے ہے اور اس کے آثار نمایاں ہوگئے ہیں، یاد رکھو کہ آج میدان عمل ہے اور کل مقابلہ ہوگا سبقت کرنے والے کا انعام جنت ہوگا اور برے عمل کا انجام جھنم ہوگا، کیا کوئی ایسا نہیں ہے جو موت سے پہلے خطاؤں سے توبہ کرلے اور سختی کے دن سے پہلے اپنے نفس کے لئے عمل کرلے، یاد رکھو کہ تم آج امیدوں کے دنوں میں ہو جس کے پیچھے موت لگی ہوئی ہے، تو جس شخص نے امید کے دنوں میں موت آنے سے پہلے عمل کرلیا اسے اس کا عمل یقینا فائدہ پہونچائے گا، اور موت کوئی نقصان نہیں پہونچائے گی لیکن جس نے موت سے پہلے امید کے دنوں میں عمل نہیں کیا، اس نے عمل کی منزل میں گھاٹا اٹھایا اور اس کی موت بھی نقصان دہ ہوگی۔
آگاہ ہوجاؤ! تم لوگ راحت کے حالات میں اسی طرح عمل کرو جس طرح خوف کے عالم میں کرتے ہو، کہ میں نے جنت جیسا کوئی مطلوب نہیں دیکھا ہے جس کے طلبگار سب سورہے ہیں اور جھنم جیسا کوئی خطرہ نہیں دیکھا ہے جس سے بھاگنے والے سب خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں[بحار الانوار، ج:۷۴، ص:۳۳۳]۔
اگر ہم کو جہنم میں جانے سے اپنے آپ کو بچانا ہے تو ضروری ہے کے امام علی(علیہ السلام) کے اس ارشاد پر عمل کریں کیونکہ وقت تنگ ہے اور موت نزدیک ہے اور جھنم کے دروازے گنہگاروں کے لئے کھلے ہوئے ہیں اور اسکی آگ ان لوگوں کے لئے تیار ہے۔
*بحار الانوارالجامعة لدرر أخبار الأئمة الاطهار، محمد باقر مجلسى، دار إحياء التراث العربي ، ۱۴۰۳ق.
Add new comment