امام علی کی نظر میں سعادت  کے دو اہم اسباب

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: سعادتمند اور نیک بخت ہونا ایک ایسی آرزو ہے، جس کا انسان ابتدائے خلقت ہی سے خواہشمند ہے۔ اور ہرکوئی اپنی خلقت کے بارے میں جتنی معرفت رکھتا ہے اس لفظ کو اس کے مطابق تصور کرتا۔ سعادت تک پہونچنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان ہمیشہ اپنے آپ کو خدا کی بارگاہ میں حاضر اور ناطر جانے۔

امام علی(علیہ السلام) کی نظر میں سعادت  کے دو اہم اسباب

 بہت سارے لوگ خوشبختی اور سعادت کے لئے مادیات کو معیار قرار دیتے ہیں۔ ان لوگوں کی نگاہ میں سعادتمند اور خوشبخت وہ ہے جو وسائل عیش و آرام اور آسایش و رفاہ میں دوسروں پر سبقت کرلے جائے۔
     دین مبین اسلام میں سعادت اور خوشبختی کا معیار ان چیزوں سے بالاتر ہے۔ دینی منابع میں مال و دولت کو جمع کرنا اور اپنے لئے مادّی وسائل کو مھیا کرنا اور زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرنا نہ فقط مذموم نہیں سمجھا گیا بلکہ اس کی طرف تشویق بھی کی گئی ہے۔ جو بھی اپنے خاندان اور گھر والوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے تلاش و کوشش کرتا ہے اس کو خدا کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے برابر سمجھا گیا ہے۔
     لیکن یہاں پر جس اہم بات کی طرف توجہ کرنا چاہئے وہ یہ ہے کہ یہ مال و دولت خدا تک پہنچنے اور خلقت کے مقصد کو سمجھنے کا وسیلہ ہو۔ اسی لئے آئمہ معصومین(علیہم السلام) جو کہ اللہ کے احکام کے مفسر اور مبلغ ہیں، ہمیشہ اس چیز کی کوشش کرتے رہے کہ سعادت اور خوشبختی کے معنوی پہلووں کو اجاگر کر کے دنیا کی خوشبختی کو آخرت کی سعادت اور خوشبختی میں تبدیل کر سکیں اور سعادت و خوشبختی کی ایک ایسی واضح اور روشن تصویر دکھا سکیں جو لوگوں کی حقیقی سعادت اور خوشبختی کی طرف راہنمائی کرے۔
     سعادت اور خوشبختی کے باب میں ائمہ معصومین(علیہم السلام) سے جو فرامین ہم تک پہنچے ہیں ان میں سے حضرت امام علی(علیہ السلام) کے چند فرامین کو یہاں پر بیان کیا جا رہا ہے۔
۱. خدا پر یقین:
     ہر انسان کی یہ خواہش ہے کہ عزت کو حاصل کرے اور یہ اس وقت حاصل ہوسکتی ہے جب انسان پورے طریقہ سے خداوند متعال پر بھروسہ کرے جیسا کہ خداوند متعال اس آیت میں ارشاد فرمارہا ہے: «مَنْ كانَ يُريدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَميعاً[سورۂ فاطر، آیت:۱۰] جو شخص بھی عزّت کا طلبگار ہے وہ سمجھ لے کہ عزّت سب پروردگار کے لئے ہے».
    خدا پر یقین، صرف اسی پر بھروسہ کرنا انسان کی سعادت کا سب سے اہم ذریعہ ہے، اگر انسان کو خدا پر بھروسہ ہوجائے تو وہ کسی کا محتاج نہیں رہتا کیونکہ وہ سمجھ جاتا ہے  کہ ہر کام کو صرف اور صرف وہ ہی کرنے والا ہے۔ جس کے بارے میں امام علی(علیہ السلام) اس طرح ارشاد فرمارہے ہیں: «میرے خدا مجھے توفیق دے کہ میں تیری بارگاہ کا ہوجاؤں اور ہمارے دلوں کی آنکھیں جب تیری طرف نظر کریں تو انہیں نورانی بنادے تا کہ یہ دیدہ ہائے دل حجابات نور کو پار کرکے تیری عظمت و بزرگی کے مرکز سے جاملیں اور ہماری روحیں تیری پاکیزہ بلندیوں پر آویزاں ہوجائیں»[۱]۔

۲. خود پر یقین:
     جو کوئی اپنی استعداد و صلاحیت اور اس کے  اندر جو خوبیاں پائی جاتی ہیں، اگر اسکو پہجان لے اور اس کا صحیح طریقہ سے استفادہ کرے، اس طریقہ سے کہ اس کے اندر نہ غرور اور تکبر پیدا ہو اور نہ ہی وہ اپنے آپ کو دوسرے سے کم سمجھیں، تو اس کو اپنے آپ پر یقین ہوجاتا ہے جس کے بعد اس سے بہت زیادہ کمالات اور فضائل  رونما ہوتے ہیں۔ جس کے بارے میں امام علی(علیہ السلام) اس طرح ارشاد فرمارہے ہیں:« سب سے بڑی حکمت یہ ہے انسان اپنے آپ کو پہجانے»[۲].
     جو انسان اپنی استعداد اور توانائی کو پہچان لے اور اپنی قدر و منزل سے واقف ہوجائے اور اس کے بعد اگر اس سے صحیح طریقہ سے استفادہ بھی کرلے تو بے شک وہ سعادت تک پہونچ سکتا ہے۔
نتیجہ:
   اگر انسان کو خدا پر پورے طریقہ سے یقین ہوجائے تو وہ کبھی بھی دوسروں پر بھروسہ نہیں کرتا اور نہ ہی کسی دوسرے سے کسی امید کو لگا کر بیٹھتا ہے، کیونکہ اسکو اس بات کا یقین ہوچکا ہے کہ ہر کام کا کرنے والا صرف اور صرف وہی ہے، اور اس طرح اس کو اپنے آپ پر بھی یقین ہوجاتا ہے۔
................................
حوالے:
[۱]ِ «لَهِي هَبْ لِي كَمَالَ الانْقِطَاعِ إِلَيْكَ وَ أَنِرْ أَبْصَارَ قُلُوبِنَا بِضِيَاءِ نَظَرِهَا إِلَيْكَ حَتَّى تَخْرِقَ أَبْصَارُ الْقُلُوبِ حُجُبَ النُّورِ فَتَصِلَ إِلَى مَعْدِنِ الْعَظَمَةِ وَ تَصِيرَ أَرْوَاحُنَا مُعَلَّقَةً بِعِزِّ قُدْسِكَ»۔ بحار الانوار، محمد باقر مجلسى، ج۹۱، ص۹۹، دار إحياء التراث العربي ،بيروت، دوسری چاپ، ۱۴۰۳ق۔
[۲] «أَفْضَلُ الْحِكْمَةِ مَعْرِفَةُ الْإِنْسَانِ نَفْسَهُ وَ وُقُوفُهُ عِنْدَ قَدْرِهِ».  تصنيف غرر الحكم، عبد الواحد تميمى آمدی، ص ۲۳۲، انتشارات دفتر تبليغات، قم، ۱۳۶۶ش.

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
9 + 4 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 53