خلاصہ: انسان کو آخرت میں بلند مقامات حاصل کرنے کے لئے اس دنیا میں زہد اختیار کرنا ضروری ہے، زہد دنیا سے کنارہ کشی کرنے کا نام نہیں ہے، بلکہ دنیا کو آخرت کے لئے استعمال کرنے کا نام زہد ہے۔
زہد کی تعریف میں حضرت علی(علیہ السلام) کا صرف ایک ہی جملہ کافی ہے، جس میں امام(علیہ السلام) نے زہد کو پوری طریقہ سے واضح اور روشن فرمادیا ہے۔ امام علی(علیہ السلام) فرماتے ہیں: «اَلزُّہْدُ کُلّہُ بَیْنَ کَلِمَتَیْنِ مِنَ الْقُرْآنِ[۱] تمام زہد قرآن مجید کے دو فقروں کے اندر سمیٹا ہوا ہے»، اور پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: «لِكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَى مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ[سورۂ حدید، آیت:۲۳] یہ تقدیر اس لئے ہے کہ جو تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اس کا افسوس نہ کرو اور جو مل جائے اس پر غرور نہ کرو کہ اللہ اکڑنے والے مغرور افراد کو پسند نہیں کرتا ہے»۔
حضرت علی(علیہ السلام) اس آیت کے ذریعہ فرمارہے ہیں کہ اگر تم ایک ایسے مرحلہ پر پہنچ جاؤ کہ جو کچھ تمھارے پاس ہے اگر اسے چھین لیا جائے، تو تم غمگین نہ ہونا اور دنیا کا غم تمہیں اپنی گرفت میں نہ لے لے۔ اور اگر تمہارے پاس کچھ بھی نہ ہو اور اچانک تمہیں دنیا مل جائے، تو تمہارا حال یہ نہ ہو کہ تم خوشی سے پھولے نہ سماؤ۔
دنیا میں زہد اختیار کرنے والے بغیر کسی روک ٹوک اور بغیر کسی سوال و جواب کے جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ لہذا کچھ ہاتھ سے نکل جائے تو اس پر افسوس مت کرو، اور جو کچھ ملے اس پرغرور مت کرو، خوش نصیبی ان کے لئے ہیں، جنہوں نے دنیا میں زہد اختیار کیا اور ہمیشہ آخرت کی طرف متوجہ رہے، دنیا کو ہدف اور مقصد نہیں بنایا بلکہ اسے صرف آخرت کے لئے وسیلہ کے طور پر استعمال کیا، اس کی نعمتوں سے اتنا ہی استفادہ کیا جتنا آخرت میں کام آنے والا ہے اور باقی کو اس کے اہل کے لئے چھوڑ دیا۔ انسان کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ مادی اور فانی دنیا ہے، اس کی یہ رنگینیاں کسی اہمیت کی حامل نہیں ہے۔ اگر آپ عاقل ہوگئے تو زاہد بھی ہو جائیں گے زاہد کا یہ مطلب نہیں کہ بالکل دنیا کو ترک کردیا جائے بلکہ عقلی تقاضوں کے تحت زندگی کو اعتدال کے ساتھ بسر کرنے کا نام زہد ہے۔ دنیا کو سب کچھ سمجھ لینا اور اسی پر تکیہ کرلینا یا دنیا کو پوری طریقہ سے چھوڑ دینا اور کونہ نشینی اختار کرلینا یہ دونوں صحیح نہیں ہے، بلکہ دنیا کو آخرت کے لئے استعمال کرنے کا نام زہد ہے۔
امام جعفر صادق(علیہ السلام) کے نئے لباس پہننے پر کسی نے آپ پر اعتراض کیا کہ یہ آپ کے آباؤ اجداد کا طریقہ نہیں تھا! آپ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ میرے آباؤ اجداد کا زمانہ اور تھا، اس کے حالات اس طریقہ کے نہیں تھے، اور اب صورتحال بدل چکی ہے۔اگر میں اس دور میں اپنے جدّ امجد حضرت علی(علیہ السلام) کی طرح لباس زیب تن کروں تو لوگ میرا مذاق اڑائیں گے، لہذا ضروری ہے کہ زمانہ کے مطابق لباس پہنو، آپ نے اعتراض کرنے والے سے فرمایا میرے قریب آؤ؛ پھر امام(علیہ السلام) نے اس نئے لباس کے نیچے جو پرانا پیوند لگا ہوا لباس پہنے ہوئے تھے اسے دکھایا۔ پھر امام(علیہ السلام) نے فرمایا نیچے والا لباس خدا کے حضور انکساری کی علامت ہے اور اوپر والا تیرے اور تیری طرح کے لوگوں کے لئے ہے۔ امام(علیہ السلام) کے اس رفتار سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ کے ساتھ چلنا بھی ضروری ہے۔[۲]
نتیجہ:
نتیجہ کے طور پر حضرت علی(علیہ السلام) کے ایک دوسرے قول کو بیان کرسکتے ہیں کہ جس میں آپ نے فرمایا: «ازْهَدْ فِي الدُّنْيَا يُبَصِّرْكَ اللَّهُ عَوْرَاتِهَا[۳] دنیا میں زہد اختیار کرو تاکہ خداوند متعال تمہیں اس کی برائیوں سے آگاہ کردے»۔ حضرت علی(علیہ السلام) کے اس حکیمانہ فرمان کے ذریعہ زہد کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱] بحار الانوار، محمد باقرمجلسى، ج۶۷، ص۳۲۰، دار إحياء التراث العربي ،بيروت، دوسری چاپ، ۱۴۰۳ق.
[۲] الکافی، محمد ابن یعقوب کلینی، ج۳، ص۴۴۲، دار الکتب الاسلامی، تھران، ۱۴۰۷ ھ ق۔ بحارالانور،ج۴۰، ص۳۳۶۔
[۳] بحارالانور،ج۶۷، ص۳۱۹۔
Add new comment