خلاصہ: اپنے عیب کو دیکھنے اور لوگوں کے عیب کو نہ دیکھنے میں باہمی تعلق پایا جاتا ہے۔
حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "مَنْ ابْصَرَ عَيْبَ نَفْسِهِ لَمْ يَعِبْ احَداً"، "جو شخص اپنا عیب دیکھے وہ کسی کا عیب تلاش نہیں کرتا"۔ [غررالحکم، ص۶۱۲، ح۷۲۹]
جب انسان اس بات کو سمجھ لے کہ عیب کاپایا جانا بُرا ہے، چاہے اپنے اندر اور چاہے کسی دوسرے میں، تو اس عیب سے نفرت کرے گا۔ جب انسان اپنے عیب کو غور سے دیکھے تو اسے یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ یہ عیب بری چیز ہے تو وہ اس عیب کو اپنے اندر سے ختم کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس شخص کو یہ فکر ہوگی کہ یہ عیب میرے اندر پایا جاتا ہے اور اسے میں نے ختم کرنا ہے، اگر بصیرت کی نظر اور دل کی آنکھوں سے اپنے عیبوں کو دیکھے تو لوگوں کے عیب تلاش نہیں کرے گا۔ مثلاً آدمی اپنے عیبوں کو تلاش کرتا ہے تو اپنے اندر کنجوسی پاتا ہے۔ ادھر سے جانتا ہے کہ کنجوسی بری صفت ہے اور روایات میں کنجوس آدمی کی مذمت ہوئی ہے تو وہ کنجوسی کے عیب کو اپنے سے ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس صورتحال میں وہ لوگوں کے عیب تلاش نہیں کرے گا، بلکہ اس کی پوری کوشش یہی ہوگی کہ جہاں پیسہ خرچ کرنا چاہیے، وہاں خرچ کرے اور کنجوسی کے عیب کو اپنے سے ختم کردے۔
یا جب آدمی اپنے عیبوں کے بارے میں غور کرتا ہے تو مثلاً جھوٹ بولنے کا عیب اپنے اندر پاتا ہے تو اپنے اس عیب سے نفرت کرتا ہے، اس کے دنیاوی اور آخرتی نقصانات کو دیکھتا، اس کا ضمیر اس عیب کی مذمت کرتا ہے تو آدمی اس عیب کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لہذا جو شخص واقعی طور پر اپنے عیب کو دیکھتا ہےوہ دوسروں کا عیب تلاش نہیں کرتا۔
* غرر الحكم و درر الكلم، آمدی، ص۶۱۲، ح۷۲۹، ناشر: دار الكتاب الإسلامي، قم، ۱۴۱۰ ھ . ق۔
Add new comment