خلاصہ: اگر آدمی کو واقعی طور پر عیبوں سے نفرت ہو تو پہلے اپنے عیبوں سے نفرت ہونی چاہیے، لہذا اپنے عیبوں کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
جو شخص جن لوگوں کے عیبوں کو تلاش کرتا ہے ہوسکتا ہے کہ وہ لوگ اپنی اصلاح کرتے ہوئے اپنے عیبوں کو ختم کرنے میں کامیاب ہوجائیں، لیکن اس کے اپنے عیب پہلے کی طرح باقی ہیں، کیونکہ شاید اسے کوئی اس کے عیبوں سے مطلع نہ کرے، لہذا اسے اپنے عیبوں کی تلاش میں رہنا چاہیے۔
جو آدمی اپنے عیبوں کی تلاش میں رہے تا کہ ان کو ڈھونڈ کر ختم کرنے کی کوشش کرے تو خودبخود دوسروں کے عیب ڈھونڈنے سے باز آجائے گا۔ حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) ارشاد فرماتے ہیں: "من عرف عيب نفسه اشتغل عن عيب غيره"، "جس شخص نے اپنا عیب جان لیا وہ دوسروں کے عیب (کی تلاش میں) مصروف نہیں ہوگا"۔ [کنزالفوائد، ص۱۲۸]
کیونکہ وہ دیکھ رہا ہوگا کہ میرے اپنے اندر اتنے عیب پائے جاتے ہیں کہ اگر ان کی فہرست بناؤں تو مجھے اپنے ضمیر کے سامنے انتہائی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا، لہذا جو شخص شرمندگی میں ڈوبا ہوا ہو تو وہ دوسرے آدمی کے عیب کیسے نکال سکتا ہے۔ شرمندگی کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ آدمی کی اپنی شرمندگی دوسرے آدمی کو شرمندہ کرنے سے رکاوٹ بن جاتی ہے، کیونکہ شرمندگی انسان کے تکبر، غرور اور سرکشی کو پگھال دیتی ہے۔
لیکن اگر آدمی لوگوں کے عیبوں کو تلاش کرتا رہے تو وہ اس حقیقت سے محروم رہے گا کہ اس کے اپنے اندر کتنے عیب پائے جاتے ہیں جن کا خاتمہ کرنا چاہیے۔ لہذا اگر انسان کو عیب کا پایا جانا پسند نہیں ہے تو وہ خود اس کا زیادہ حقدار ہے کہ اپنے عیب تلاش کرکے ان کو ختم کرے۔
* کنزالفوائد، ص۱۲۸، عبدالفتح کراجکی، متوفیٰ ۴۴۹۔
Add new comment