خلاصہ: اپنے عیبوں کو دیکھنے اور عقلمندی کا باہمی تعلق ہے، اس بات کو روایت کی روشنی میں بیان کیا جارہا ہے۔
حضرت امام علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "أعقلُ النّاس مَن كانَ بعَيبِهِ بصيراً و عن عَيبِ غيرِهِ ضريراً "، "سب سے عقلمند شخص وہ ہے جو اپنے عیب کو دیکھے اور دوسروں کے عیب سے اندھا ہو"۔ [غررالحکم، ص۲۰۷، ح۴۰۹]
جب انسان کی سوچ دنیاوی اور مادی ہو اور اس کی ساری کوشش یہ ہو کہ اپنی خواہشات کو پورا کرے تو اسے اپنے عیب دکھائی نہیں دیں گے اور اگر دکھائی دیں تو ان کو نظرانداز کردے گا اور اگر نظرانداز نہ کرسکے تو اس کے لئے کوئی بہانہ اور من گھڑت وجہ ڈھونڈ لے گا تا کہ اس عیب کو عیب نہ سمجھے، بلکہ اپنے مقصد تک پہنچنے کا طریقہ کار اور ذریعہ سمجھ لے، حالانکہ یہ شیطان کا دھوکہ ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ عیب تلاش کرنے والا جس عیب کی وجہ سے دوسروں سے نفرت کرتا ہے اس کے اپنے اندر وہی عیب پایا جاتا ہو تو اپنے اس عیب سے نفرت نہیں کرتا۔
عقلمندی یہ نہیں ہے کہ آدمی لوگوں کے عیب تلاش کرے اور اپنے عیب نہ ڈھونڈے، کیونکہ اگر کوئی عیب لوگوں کے لئے نقصان کا باعث ہے تو اس آدمی کے لئے بھی نقصان کا باعث ہے کہ جو لوگوں کے عیب تلاش کرتا ہے اور اپنے عیبوں سے غافل ہے، اور اگر عیبوں کو ختم کرلینے میں لوگوں کا فائدہ ہے تو اس آدمی کا بھی اس میں فائدہ ہے کہ وہ اپنے عیبوں کو ختم کرے۔
جو شخص اپنے عیبوں پر بصِیر ہوتا ہے اور انہیں اچھی طرح دیکھتا ہے اسے اپنے عیب اس قدر اپنے میں مصروف رکھتے ہیں کہ وہ دوسروں کے عیبوں کو تلاش ہی نہیں کرتا، لیکن جو شخص دوسروں کے عیبوں کو تلاش کرتا رہتا ہے اس کو یہ بری عادت، اپنے عیبوں کو دیکھنے سے روک لیتی ہے۔
لہذا انسان کو چاہیے کہ اپنے عیب دیکھے اور لوگوں کے عیب کو نظرانداز کرے تا کہ سب سے زیادہ عقلمند شخص بن جائے۔
* غرر الحكم و درر الكلم، آمدی، ص۲۰۷، ح۴۰۹، ناشر: دار الكتاب الإسلامي، قم، ۱۴۱۰ ھ . ق۔
Add new comment