خلاصہ: عیب تلاش کرنا خود عیب ہے، جب کوئی شخص کسی کے عیب تلاش کرتا ہے تو وہ دو باتوں سے غافل ہوجاتا ہے۔
جو آدمی لوگوں کے عیب تلاش کرتا ہے وہ دو چیزوں سے غافل ہوتا ہے:
۱۔ اپنے عیبوں سے غفلت: لوگوں کے عیب تلاش کرنا باعث بنتا ہے کہ انسان اپنے عیبوں سے غافل ہوجائے، لیکن اگر انسان اپنے عیب تلاش کرے تو پھر لوگوں کے عیب تلاش نہیں کرے گا۔ حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "يَا أَيُّهَا النَّاسُ طُوبَى لِمَنْ شَغَلَهُ عَيْبُهُ عَنْ عُيُوبِ النَّاسِ"، "اے لوگو! خوش حالی ہے اس شخص کے لئے جسے اس کا عیب لوگوں کے عیبوں کو نظرانداز کرکے (اپنے میں) مصروف کرے"۔ [نہج البلاغہ، خطبہ ۱۷۶]
۲۔ دوسرے آدمی کے اچھے کاموں سے غفلت: عیب تلاش کرنے والا شخص، کسی آدمی کے ایک دو کاموں یا صفات کو عیب سمجھ کر لوگوں کو بتا دیتا ہے، حالانکہ وہ اس آدمی کے دوسرے اچھے صفات اور نیک کاموں کو نہیں جانتا یا اگر جانتا ہے تو جان بوجھ کر ان کو نظرانداز کردیتا ہے تاکہ اپنی یہ بری عادت پوری کرسکے۔ مثلاً ہوسکتا ہے کہ اس آدمی سے کوئی غلطی سرزد ہوگئی ہو، لیکن جہاں ضرورت ہو وہاں سخاوت کرتا ہے، شادی بیاہ کے اخراجات میں لوگوں سے تعاون کرتا ہے، نماز فضیلت کے وقت پر ادا کرتا اور رات کو اٹھ کر تہجد پڑھتا ہے، لوگوں سے خوش مزاجی اور نرمی سے برتاؤ کرتا ہے، لوگوں کے معاملات کو حل کرتا ہے اور کئی دیگر نیک کام اور اچھے صفات کا حامل ہے۔
مگر عیب تلاش کرنے والا اتنا غافل ہوتا ہے کہ اسے اس آدمی کی یہ نیکیاں نظر نہیں آتیں اور اگر اسے بتایا جائے کہ اس آدمی میں یہ اچھے صفات پائے جاتے ہیں تو اسے اس بات کی سمجھ نہیں آئے گی یا جانتے ہوئے نظرانداز کردے گا اور اس کو اس آدمی کے صرف چند ایک عیب ہی دکھائی دیں گے جبکہ اگر وہ اپنے ضمیر اور کردار کو دیکھے تو اس کو بہت سارے عیب ملیں گے، لہذا وہ دوسروں سے زیادہ اپنی اصلاح کرنے کا ضرورتمند ہے۔
وہ لوگوں کی نیکی کو چھوٹا سمجھتا ہے اور اپنی نیکی کو بڑا سمجھ لیتا ہے، دوسروں کے عیب کو بڑا سمجھ لیتا ہے اور اپنے عیبوں کو عیب ہی نہیں سمجھتا، بلکہ مختلف عذر اور بہانے بھی پیش کرتا ہے۔
* نہج البلاغہ، سید رضی علیہ الرحمہ۔
Add new comment