خلاصہ: سب سے زیادہ محبوب دینی بھائی وہ ہونا چاہیے جو ہمیں ہمارے عیب ہدیہ دے۔
عیب تلاش کرنا غلط کام ہے اور یہی خود عیب ہے، لیکن کسی کی خیرخواہی کرتے ہوئے اس کو اس کے عیب سے مطلع کرنا اچھا کام ہے اور مطلع کرنے والا دادتحسین کے لائق ہے۔
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) ارشاد فرماتے ہیں: "أحَبُّ إخواني إلَيَّ مَن أهدى إلَيَّ عُيوبي"، "میرا سب سے زیادہ محبوب بھائی وہ ہے جو میرے عیب مجھے ہدیہ دے"۔ [تحف العقول، ص ۳۶۶]
اس حدیث کی روشنی میں چند درس ماخوذ ہوتے ہیں:
۱۔ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) دیگر معصوم حضرات (علیہم السلام) کی طرح معصوم ہیں اور ہر عیب سے پاک ہیں اور آپؑ کا یہ فرمان، مسلمانوں کے لئے تعلیمی ارشاد ہے۔
۲۔ آپؑ نے اس کلام میں اپنی طرف نسبت دی ہے، جبکہ آپؑ معصوم امام ہیں، لہذا آپؑ کا یہ ارشاد، تواضع اور انکساری سے چھلک رہا ہے۔
۱۔ دینی بھائی کو اس کے عیب بتانے میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ اسے اپنا زیادہ محبوب اور دوست سمجھنا چاہیے۔
۲۔ انسان یہ نہ سمجھے کہ اگر اس کو کسی نے اس کے عیبوں سے مطلع کردیا ہے تو وہ اس سے مخالفت اور دشمنی کررہا ہے، نہیں! بلکہ یہ بات تو محبت کا باعث ہے۔
۳۔ بعض لوگ اپنے دوستوں کے عیب چھپائے رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ دوستی کی وجہ سے اپنے دوست کا عیب اسے نہ بتائیں، جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے، اگر دوستی ہے تو دوستی کی علامت یہ ہے کہ انسان اپنے دوست کا عیب اسے بتائے۔
۴۔ اگر آدمی کا مخالف شخص اسے اس کے عیب سے مطلع کرے تو ہوسکتا ہے کہ آدمی اس سے ضد کی وجہ سے اس کی بات نہ مانے، لیکن دوست دوست کو آسانی اور نرمی سے سمجھا سکتا ہے کہ تمہارے اندر یہ عیب پایا جاتا ہے۔ لہذا دوست دوست کی بات سے بہتر متاثر ہوکر اپنے سے اس عیب کو ختم کرنے کی کوشش کرے گا۔
۵۔ اپنے دینی بھائی کو اس کا عیب بتانا، عیب نہیں ہے، بلکہ ہدیہ ہے جو دینی بھائی اپنے بھائی کو پیش کرتا ہے، اور صرف یہ نہیں کہ آدمی کو اس کا عیب بتانے والا شخص، آدمی کا صرف محبوب قرار پائے، بلکہ سب دینی بھائیوں میں سے زیادہ محبوب قرار پائے گا۔
* تحف العقول، ابن شعبة الحراني، مؤسسة النشر الاسلامي، ص ۳۶۶۔
Add new comment