خلاصہ: جب اللہ تعالیٰ نعمت عطا فرماتا ہے تو انسان کو چاہیے کہ اللہ کا شکر ادا کرے اور جب اسے کوئی تکلیف پہنچے تو اسے چاہیے کہ اللہ پر بھروسہ اور توکل کرے نہ یہ کہ مایوس اور ناامید ہوجائے۔
بعض اوقات انسان اپنے مال، دولت اور اولاد کی کثرت کو دیکھتا ہے اور بعض اوقات اپنے فقر و نقص کی طرف دیکھتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب اسے اپنے فقر اور نقص کی طرف دیکھنا چاہیے تو مال، دولت اور اولاد کی کثرت کو دیکھنے لگتا ہے اور جب اسے مال و اولاد کی طرف دیکھنا چاہیے تو اپنے فقر کی طرف دیکھتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں جس وقت جدھر دیکھنا چاہیے اُدھر نہیں دیکھتا تو نتیجہ الٹ نکالتا ہے، پھر اس نتیجہ کا خود اس پر جو اثر پڑتا ہے وہ بھی الٹ ہوتا ہے۔
جب اسے اللہ تعالیٰ نعمت عطا فرمائے تو تکبر اور غرور کرتے ہوئے اللہ کو بھلا دیتا ہے اور ادھر سے وہ اتنا کم ظرف ہوتا ہے کہ جب اسے کوئی تکلیف چھولے تو مایوسی اور ناامیدی اس پر چھا جاتی ہے۔ سورہ اسراء کی آیت ۸۳ میں ارشاد الٰہی ہے: "وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَىٰ بِجَانِبِهِ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ يَئُوساً"، "اور جب ہم انسان کو کوئی نعمت عطا کرتے ہیں تو وہ منہ پھیر لیتا ہے اور پہلو تہی کرتا ہے اور جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو مایوس ہو جاتا ہے"۔
حالانکہ انسان کو چاہیے کہ جب اسے نعمت ملے تو اس نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرے، اس نعمت کو صحیح راستے میں استعمال کرے اور اس نعمت کے ذریعے پہلے سے زیادہ اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کرے۔
اور جب اسے کوئی تکلیف پہنچے تو اسے چاہیے کہ اللہ کی بارگاہ میں گڑگڑائے، اللہ پر بھروسہ اور توکل کرے اور اس کی تقدیر پر راضی رہے۔ وہ یہ جان لے کہ اللہ ہی اس کی تکلیف کو دور کرسکتا ہے، لہذا ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ تکلیف اور مشکل سے سامنا کرتے ہوئے انسان اسباب پر نظر دوڑائے تو دیکھے کہ اس کی تکلیف کو دور کرنے کا ظاہری طور پر کوئی سبب نظر نہیں آرہا تو مایوس اور ناامید ہوجائے۔
* ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
Add new comment