خلاصہ: خطبہ فدکیہ کی تشریح کرتے ہوئے سترہواں مضمون تحریر کیا جارہا ہے۔ نعمت کے بدلے میں نعمت دینے والے کا شکر ادا کرنے پر انسان کا فطری تقاضا، انسان میں جذبہ پیدا کرتا ہے تاکہ شکر ادا کرے اور اللہ تعالیٰ کا شکر کرنا، نعمتوں کے اضافہ ہونے کا باعث بنتا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے خطبہ فدکیہ میں فرمایا: "وَ نَدَبَهُمْ لاِسْتِزادَتِها بِالشُّكْرِ لاِتِّصالِها"، "اور اللہ نے لوگوں کو دعوت دی ہے شکر کے ذریعے نعمتوں کے بڑھانے کی، نعمتوں کے جاری رہنے کی وجہ سے"۔ [احتجاج، طبرسی، ج1، ص 132]
یہ جو اللہ تعالیٰ نے ابتدائی طور پر نعمتیں دے کر لوگوں کو شکر کرنے کی دعوت دی ہے تاکہ ان کی نعمتوں میں اضافہ کرے، یہ نعمتوں سے بالاتر ایک اور عظیم نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اُن ابتدائی نعمتوں کی عطا میں کوئی کمی نہیں رکھی، لیکن اس کے باوجود بندوں کے لئے ایک اور راستہ بھی کھول دیا ہے جو ایک الگ سنّت الٰہی ہے۔ سورہ ابرہیم کی ساتویں آیت میں جو ارشاد فرمایا ہے: "وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ"، "اور یاد کرو جب تمہارے پروردگار نے تمہیں مطلع کر دیا تھا کہ اگر (میرا) شکر ادا کروگے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا اور اگر کفرانِ نعمت (ناشکری) کروگے تو میرا عذاب بھی بڑا سخت ہے"، یہ ارشاد باعث بنتا ہے کہ شکر کرنے کا لوگوں میں زیادہ جذبہ پیدا ہو۔ لفظ "اذان" اعلان کے معنی میں ہے، اور بابِ تفعّل باعث بنتا ہے کہ یہ اذان یعنی اعلان بہت واضح اور یقینی طور پر بیان ہو، لہذا "تَأَذَّنَ" یعنی واضح اور تاکید کے ساتھ اعلان کیا۔
یہ نکتہ انتہائی غورطلب ہے کہ شکر کرنے کے لئے اس امر کی ضرورت ہے کہ انسان اس بات کو سمجھ لے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے وہ نعمت ہے، پھر جان لے کہ یہ نعمت اللہ کی طرف سے ہے، جب ان باتوں کو سمجھ لے گا تو اس کا فطری تقاضا بیدار ہوگا اور جذبہ پیدا ہوگا کہ نعمت دینے والے کا شکر ادا کرنا چاہیے، اور شکر ادا کرنے کا یہ فطری تقاضا بھی باقی نعمتوں کے علاوہ، اللہ تعالیٰ کی مزید ایک اور نعمت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[احتجاج، طبرسی]
[شرح خطبہ فدکیہ، آیت اللہ مصباح یزدی]
[ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب]
Add new comment