خلاصہ: انسان عموماً سمجھتا ہے کہ اسباب و وسائل اس کے مسائل کو حل کرتے ہیں اور اس کی سہولیات کو فراہم کرتے ہیں، جبکہ ایسا نہیں ہے، اسباب خود بھی اللہ کے اذن کے محتاج ہیں۔
انسان عموماً یہ سمجھتا ہے کہ اسباب و وسائل اس کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں اور اس کی سہولیات کو فراہم کرتے ہیں، لیکن جب ایسا وقت آتا ہے کہ وسائل اس کی مشکل اور تکلیف کو دور نہیں کرسکتے اور اس کی ضرورت کو پورا نہیں کرسکتے تو اس وقت اس کے لئے اضطرار کی حالت پیدا ہوجاتی ہے اور اس حالت میں اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور سمجھ جاتا ہے کہ وسائل خود کچھ نہیں کرسکتے، حقیقت میں سب کچھ اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے۔ ایسی نازک حالت میں اس کو اس بات کا ادراک ہوسکتا ہے کہ پہلے بھی یہ اسباب اپنی طاقت پر قائم نہیں تھے، بلکہ ان کا سہارا اللہ تعالیٰ پر تھا، کیونکہ وہ تو سب بے جان اور بے اختیار چیزیں ہیں۔ لہذا انسان کو اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا چاہیے۔
سورہ انفال کی آیت ۴۹ میں ارشاد الٰہی ہے: "وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ فَإِنَّ اللَّـهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ"، "اور جو کوئی اللہ پر توکل (بھروسہ) کرتا ہے سو اللہ بڑا زبردست، بڑا حکمت والا ہے"۔
ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ عام حالات میں انسان چیزوں اور لوگوں پر بھروسہ کرے اور اگر مشکل وقت آجائے، حالات بدل جائیں اور اسباب سے رابطہ کٹ جائے تو تب اللہ پر بھروسہ کرے، نہیں! بلکہ ہر حال میں بھروسہ اللہ پر ہونا چاہیے، ہاں اسباب کو استعمال کرنا بھی ضروری ہے، لیکن ساتھ یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ یہ اسباب و وسائل اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابعدار ہیں۔
* ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
Add new comment