خلاصہ: حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے خطبہ فدکیہ کی تشریح کرتے ہوئے یہ دسواں مضمون ہے۔ اس فقرہ میں حضرت صدیقہ طاہرہ (سلام اللہ علیہا) نے اللہ کی نعمتوں پر ثناء کی ہے وہ نعمتیں جو ہمہ گیر اور ابتدائی طور پر مخلوق کو ملی ہیں، گہری نظر سے غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کی ہر نعمت ابتدائی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
خطبہ فدکیہ کی تشریح کرتے ہوئے یہ دسواں مضمون پیش کیا جارہا ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) جب اپنے بابا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مسجد میں عزت و عظمت کے ساتھ داخل ہوئیں تو گریہ کرنے لگیں، لوگ بھی آپؑ کے گریہ کی وجہ سے رونے لگے، جب لوگ خاموش ہوگئے تو آپؑ نے خطبہ شروع کرتے ہوئے اللہ کی حمد و ثناء کی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوات بھیجی، یہ سن کر لوگ دوبارہ رونے لگ گئے، جب انہوں نے خاموشی اختیار کی تو آپؑ نے دوبارہ اپنا خطبہ آغاز کیا، راوی کا کہنا ہے: "فَقالَتْ: اَلْحَمْدُلِلّهِ عَلی ما أنْعَمَ وَ لَهُ الشُّكْرُ عَلی ما أَلْهَمَ وَ الثَّناءُ بِما قَدَّمَ مِنْ عُمُومِ نِعَمٍ اِبْتَدَاَها"…[1]، "آپؑ نے فرمایا: ساری حمد (تعریف) اللہ کے لئے ہے ان نعمتوں پر جو اس نے عطا فرمائیں اور صرف اس کا شکر ہے اس (اچھی سمجھ) پر جو اس نے الہام کی (دل میں ڈالی) اور اس کی ثناء ہے ان ہمہ گیر نعمتوں پر جو اس نے ابتدائی طور پر عطا کیں "…۔ یہ خطبہ اللہ کی حمد، شکر اور ثناء سے شروع ہوا ہے۔ حمد اور شکر کے سلسلہ میں گذشتہ مضامین میں گفتگو ہوچکی، اب ثناء کے بارے میں اور اس فقرہ سے متعلق دیگر مطالب کو پیش کیا جارہا ہے۔
ثناء کی وضاحت: تعریف، تمجید، تحسین، اچھی بات، خوبصورت بات۔ "الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى مَا أَنْعَمَ وَ لَهُ الشُّكْرُ عَلَى مَا أَلْهَمَ وَ الثَّنَاءُ بِمَا قَدَّمَ"، ان جملات میں پہلے جملہ کا مبتدا حمد، دوسرے جملہ کا مبتدا شکر اور تیسرے جملہ کا مبتدا ثناء ہے۔ ان تینوں کے درمیان جو فرق پایا جاتا ہے مختصر طور پر یہ ہے کہ ثناء کا مفہوم دوسرے دو لفظوں سے زیادہ وسیع ہے۔ عربی میں ہر مدحت کے لئے ثناء کو استعمال کیا جاسکتا ہے، جس کی مدح کی جارہی ہے چاہے وہ صاحب عقل ہو یا نہ ہو اور خواہ حیات کا حامل ہو یا نہ ہو، اور نیز چاہے اختیاری کام پر مدح ہو یا غیراختیاری کام پر، لیکن لفظ حمد وہاں استعمال ہوتا ہے جہاں اچھا کام، عاقل شخص نے اختیاری طور پر انجام دیا ہو، چاہے وہ کام حمد کرنے والے کے لئے کسی فائدہ کا حامل ہو یا نہ ہو، لیکن شکر، حمد کی بہ نسبت محدود ہے، شکر وہ ثناء ہے جو کسی کے اچھے کام پر کی جاتی ہے جس کام کا نتیجہ ثناء کرنے والے کو عائد ہوتا ہے۔
ثناء پروردگار سیدہ کونین (سلام اللہ علیہا) کے کلام میں: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دختر نیک اختر نے اللہ تعالی کی حمد، شکر اور ثناء کرتے ہوئے، ان میں سے ہر ایک کے ذریعے کسی نعمت پر اللہ کی تعریف کی ہے۔ حمد، اِنعام پر، شکر اِلہام پر اور ثناء تقدیم پر۔ پھر خود ثناء تین طرح کی نعمتوں پر کی ہے:" وَ الثَّناءُ بِما قَدَّمَ مِنْ عُمُومِ نِعَمٍ اِبْتَدَاَها وَ سُبُوغِ الاءٍ اَسْداها وَ تَمامِ مِنَنٍ اَوْلاها"، زیربحث جملہ میں حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) فرماتی ہیں کہ "اور اس کی ثناء ہے ان ہمہ گیر نعمتوں پر جو اس نے ابتدائی طور پر عطا کیں "۔ ثناء ہمہ گیر تعریف ہے، لہذا ان نعمتوں کو بھی شامل ہے جو اللہ تعالی نے انسان کو دی ہیں اور جو دوسری مخلوقات کو دی ہیں۔
حمد، شکر اور ثناء کی ترتیب: پہلے حمد کیوں، پھر شکر اور پھر ثناء کو بیان فرمایا ہے؟ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ آپؑ کیونکہ اللہ کی تعریف کررہی ہیں اور اللہ تعالی وہ ذات ہے جو عینِ حیات، قدرت اور علم ہے اور حیات، قدرت اور علم کے اعلی مراتب کا مالک ہے تو یقیناً انسان کو چاہیے کہ اللہ کے اچھے اور اختیاری کاموں کی وجہ سے اس کی تعریف کرے اور اللہ کے سب کام اچھے اور سب اس کے اختیار سے ہیں۔ لہذا لفظ حمد، اللہ کی تعریف کے لئے مناسب لفظ ہے اور اللہ تعالی نے قرآن میں بھی اپنے کلام کو حمد سے شروع کیا ہے۔ دوسرے جملہ میں آپؑ اللہ کی تعریف کرنا چاہتی ہے اس عطا پر جو تعریف کرنے والے کو عائد ہوتی ہے اور خصوصی عطا ہے، ایسے مقام پر لفظ شکر مناسب ہے، اللہ کی حمد اور خاص نعمتوں پر شکر کے بعد، اس تعریف کو وسعت دی ہے (جیسے خاص کے بعد عام کا تذکرہ کیا جاتا ہے)، لہذا لفظ ثناء کو استعمال کیا ہے۔
عام اور ہمہ گیر نعمتوں سے مراد: اس سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو ایک شخص کے لئے نہیں بلکہ سب لوگ انہیں استعمال کرتے ہیں اور تمام لوگوں کے لئے فائدہ رساں ہیں جیسے: آسمان، زمین، سورج، ہوا، پانی، بارش وغیرہ کی نعمتیں جو سب مخلوقات کو شامل ہوتی ہیں۔ لہذا عام نعمتیں ان نعمتوں کے مدمقابل ہیں جو بعض مخلوقات سے مختص ہیں جیسے بینائی، سماعت اور عقل کی نعمت۔ یا عام نعمتوں سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو اکثر انسانوں کو دی گئی ہیں اور انسانوں کی کم ہی تعداد اس سے محروم ہے۔
ابتدائی نعمتوں سے مراد: اس سے مراد یہ ہے کہ کسی چیز کے بدلہ میں اور حقدار ہونے کی بنیاد پر نہیں ہے، جیسا کہ دعا میں ہے: "يَا مُبْتَدِئاً بِالنِّعَمِ قَبْلَ اسْتِحْقَاقِهَا"[2]، "اے نعمتوں کی ابتداء کرنے والے، نعمتوں کے استحقاق سے پہلے"۔ البتہ ہوسکتا ہے کہ "قَبْلَ اسْتِحْقَاقِهَا" کا اور مطلب بھی ہو جو یہ ہے کہ مخلوقات اپنے اختیار سے اعمال بجالانے کے ذریعے بدلہ (اجر) کی مستحق ہوجائیں، لیکن اللہ تعالی اس سے پہلے کہ کوئی شخص اختیاری طور پر عمل انجام دے کر کسی نعمت کا مستحق ہوجائے، ابتدائی طور پر اپنے بندوں کو نعمت عطا فرماتا ہے، جیسے بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اور پروردگار اس کی پیدائش سے پہلے اس کی ماں کے سینہ میں اس کا رزق خلق کردیتا ہے اور اس سے پہلے وہ نعمتیں ہیں جو اللہ تعالی نے انسان کی خلقت سے بھی پہلے اس کے لئے تیار کررکھی ہیں، جیسے: زمین، ہوا، روشنی، تپش، کھانے پینے والی چیزیں۔
زیادہ گہری نظر سے دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کی نعمتیں اس طرح نہیں ہیں کہ کیونکہ انسان ان کا مستحق ہے اور مستحق ہونے کا لازمہ یہ ہے کہ اس شخص کو نعمت عطا کی جائے اور ایسا نہیں ہے کہ نعمت، استحقاق کے بعد والے مرحلہ میں ہو، اس لیے کہ حقدار ہونا تب صحیح ہے کہ انسان خود کسی چیز کا مالک ہو تو اس چیز کو مفت یا کسی چیز کے بدلہ میں کسی شخص کو دے، اس صورت میں دینے والے کے لئے کوئی حق ثابت ہوتا ہے، لیکن اگر کوئی مخلوق کسی چیز کی مالک نہ ہو اور اصل وجود اور دیگر طاقتوں کے لحاظ سے بالکل محتاج ہو اور حتی جس وسیلہ کے ذریعے کام کرتی ہے اس وسیلہ کی بھی مالک نہ ہو تو بالکل مستحق نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی شخص نے کسی مزدور کو اپنی جسمانی طاقت دی، اسے بدن کے اعضا دیئے اور اسے ہمت اور مدد دی اور پھر اس سے کہا کہ فلاں کام کرو، کیا وہ مزدور کسی حق کا مطالبہ کرسکتا ہے؟ نہیں! کیونکہ وہ سب حالات میں سر سے پاوں تک محتاج ہے۔ حضرت امام زین العابدین (علیہ السلام) صحیفہ سجادیہ میں فرماتے ہیں: "لايَجِبُ لِأَحَدٍ اَنْ تَغْفِرَ لَهُ بِاسْتِحْقاقِهِ[3]"…، "کوئی استحقاق ہی نہیں رکھتا کہ تو اس کے استحقاق کی بناء پر بخش دے یا اس کے حق کی وجہ سے اس سے خوش ہو، جسے تو نے بخش دیا تو یہ تیرا انعام ہے، اور جس سے تو راضی ہوگیا تو تیرا تفضّل ہے۔ جس عملِ قلیل کو تو قبول فرماتا ہے، اس کی جزا فراواں دیتا ہے اور مختصر عبادت پر بھی ثواب مرحمت فرماتا ہے یہاں تک کہ گویا بندوں کا وہ شکر بجالانا جس کے مقابلہ میں تو نے اجر و ثواب کو ضروری قرار دیا اور جس کے عوض ان کو اجر عظیم عطا کیا، ایک ایسی بات تھی کہ اس شکر سے دست بردار ہونا ان کے اختیار میں تھا تو اس لحاظ سے تو نے اجر دیا (کہ انہوں نے باختیار خود شکر ادا کیا) یا یہ کہ ادائے شکر کے اسباب تیرے قبضہ قدرت میں نہ تھے (اور انہوں نے خود اسباب شکر مہیّا کئے) جس پر تو نے انہیں جزا مرحمت فرمائی۔ (ایسا تو نہیں ہے) بلکہ اے میرے معبود! تو ان کے جملہ امور کا مالک تھا قبل اس کے کہ وہ تیری عبادت پر قادر و توانا ہوں اور تو نے ان کے لئے اجرو ثواب کو مہیّا کردیا تھا قبل اس کے کہ وہ تیری اطاعت میں داخل ہوں اور یہ اس لئے کہ تیرا طریقہ انعام و اکرام تیری عادت تفضّل و احسان اور تیری روش عفو و درگذر ہے"۔ [4]
نعمتوں کے ابتدائی ہونے کا مطلب بعض علماء نے یہ بتایا ہے کہ بعض نعمتیں انسان کے طلب کرنے سے انسان کو ملتی ہیں اور بعض طلب کیے بغیر اللہ عطا فرماتا ہے، جناب سیدہ کونینؑ یہاں پر ان نعمتوں پر اللہ کی ثناء کررہی ہیں جو انسان کے طلب کیے بغیر اللہ نے انسان کو عطا فرمائی ہیں۔
نتیجہ: کیونکہ نعمتیں ہمہ گیر اور ابتدائی ہیں تو کسی شخص کے لئے کسی حق کا تصور نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ اگر کوئی حق کسی کے لئے تصور کیا بھی جائے تو وہ حق، اطاعت اور فرمانبرداری کرنے والوں کے لئے کیا جاسکتا ہے ورنہ گنہگاروں کا حساب واضح ہے، جبکہ جو شخص اللہ تعالی کا فرمانبردار بندہ ہے اس میں خالق نے فرمانبرداری کی طاقت اور عبادت کی شوق پیدا کی ہے اور اسے وہ جسمانی اعضاء بھی عطا فرمائے ہیں جن سے وہ اپنی بندگی کے فرائض کو ادا کرتا ہے، اگر اللہ تعالی عدل کے مطابق حساب و کتاب کرے اور اپنے فضل و کرم کی بنیاد پر عطا نہ کرنا چاہے تو سب فرمانبردار بندوں کی تمام کوششیں اور محنتیں اللہ کی بیشمار نعمتوں میں سے ایک ادنی سی نعمت کے سامنے ختم ہوجائیں گی، لہذا اللہ کی سب نعمتیں ابتدائی ہیں اور ابتدائی اور ہمہ گیر نعمتوں پر حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے اللہ کی ثناء کی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] احتجاج، طبرسی، ج1، ص131، 132۔
[2] بحارالانوار، ج51، ص305۔
[3] صحیفہ سجادیہ، دعاء 37۔
[4] ترجمہ صحیفہ سجادیہ، علامہ مفتی جعفر حسین (اعلی اللہ مقامہ)، ص289۔
Add new comment