خلاصہ: حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے اپنے خطبہ کا اللہ کی حمد سے آغاز کیا ہے اور اللہ کی حمد کی ہے ان نعمتوں پر جو اللہ نے عطا فرمائی ہیں، اس مضمون میں نعمتوں کے بارے میں چند نکات بیان کیے جارہے ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
خطبہ فدکیہ کی تشریح کرتے ہوئے یہ نواں مضمون پیش کیا جارہا ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) جب اپنے بابا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مسجد میں عزت و عظمت کے ساتھ داخل ہوئیں تو گریہ کرنے لگیں، لوگ بھی آپؑ کے گریہ کی وجہ سے رونے لگے، جب لوگ خاموش ہوگئے تو آپؑ نے خطبہ شروع کرتے ہوئے اللہ کی حمد و ثناء کی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوات بھیجی، یہ سن کر لوگ دوبارہ رونے لگ گئے، جب انہوں نے خاموشی اختیار کی تو آپؑ نے دوبارہ اپنا خطبہ آغاز کیا، راوی کا کہنا ہے: "فَقالَتْ: اَلْحَمْدُلِلّهِ عَلی ما أنْعَمَ وَ لَهُ الشُّكْرُ عَلی ما أَلْهَمَ"…[1]، "آپؑ نے فرمایا: ساری حمد (تعریف) اللہ کے لئے ہے ان نعمتوں پر جو اس نے عطا فرمائیں اور صرف اس کا شکر ہے اس (اچھی سمجھ) پر جو اس نے الہام کی (دل میں ڈالی) "…۔
حمد اور انعام الہی کا باہمی تعلق: اللہ کے سب کام اچھے ہیں اور اللہ جو کام کرتا ہے، سب کام بندوں کے لئے نعمت ہیں، لہذا جب کوئی شخص اللہ کی حمد کرتا ہے تو حمد کرنے سے اس کا مقصد اللہ کی نعمتوں پر توجہ کرنا ہے۔
نعمت کا مفہوم: اِنعام یعنی نعمت کا عطا کرنا۔ نعمت کا اصل مادہ، نرمی کے معنی میں ہے۔ لفظ نعومۃ اسی مادہ سے ہے، جب کسی نرم کپڑے یا پھول کی نرم پتی کی صفت بیان کرنا چاہیں تو اسی لفظ کو استعمال کیا جاتا ہے۔ نعمتوں کو نعمت اس لیے کہا جاتا ہے کہ وصول کرنے والے کے لئے نعمت، مناسب اور مفید ہے اور اس کے وجود کے لئے ملائم اور خوشگوار ہو، اگر کوئی چیز انسان کے لئے نقصان دہ ہو تو اسے نعمت نہیں کہا جاتا۔ دوسرے لفظوں میں نعمت وہ چیز ہے جو کسی چیز کو کمال تک پہنچانے کا سبب بنتی ہے، خود کمال بھی انسان کے لئے نعمت ہے اور وہ چیز بھی جو اس کے کمال کا باعث بنتی ہے، لیکن اگر اسے نقصان یا اس کے خاتمہ کا باعث بنے تو پھر اس کے لئے نعمت نہیں ہوگی۔
نعمت کے مفہوم پر گہری نظر: نعمت کے مذکورہ بالا لغوی معنی کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ نعمت خوشگوار چیز کو کہا جاتا ہے، اب ذرا گہری نظر سے دیکھتے ہیں کہ کائنات میں جو حادثات ہم سے متعلق رونما ہوتے ہیں، دو طرح کے ہیں: نعمت، مصیبت۔ ان میں سے جن کو ہم اپنی ادراک کے مطابق پسند کرتے ہیں اور ان سے لذت حاصل کرتے ہیں، ان کو نعمت کہتے ہیں اور جو حادثات ایسے نہیں، مثلاً بیماریاں، مشکلات، تکلیفیں، ان کو نعمت نہیں بلکہ مصیبت کہہ دیتے ہیں، لیکن اگر اس بات کو توحیدی نقطہ نظر سے دیکھا جائے جس کی قرآن کریم ہمیں تعلیم دیتا ہے، تو اس سے زیادہ گہری بات حاصل ہوگی جو یہ ہے کہ بہت ساری چیزیں جن کو انسان پسند کرتا ہے اور ان کو نعمت سمجھتا ہے، وہی اس کے امتحان کا سبب بن جاتی ہیں اور وہ امتحان میں ناکام ہوتا ہوا گمراہی کے گھاٹ اتر جاتا ہے، مثال کے طور پر انسان کو مالدار ہونا بہت پسند ہے، لیکن کیا وہ دولت جو کنجوسی کرنے اور واجب حقوق کو نظرانداز کرنے کا باعث بنے، وہ بھی نعمت ہے؟! جو دنیا و آخرت میں انسان کی بدبختی کا سبب بنے! چاہے انسان اس سے لذت محسوس کرے، کیا تب بھی نعمت ہے؟! ادھر سے بعض چیزیں ایسی ہیں جن کو انسان پسند نہیں کرتا جیسے بیماری، فقر اور تکلیف، لیکن اگر یہ چیزیں باعث بنیں کہ دنیا میں انسان ترقی اور کمال کی منازل طے کرے اور آخرت میں بھی بےشمار ثواب حاصل کرلے تو کیا یہ تکلیفیں جو ظاہری طور پر مصیبت تھیں، حقیقت میں مصیبت ہیں یا نعمت؟
بعض علماء کا کہنا ہے کہ جس چیز کو انسان اللہ کے قرب تک پہنچنے کے لئے استعمال کرے، حقیقی نعمت ہے اور اگر بعض چیزیں لذیذ ہونے کے باوجود اور بسااوقات انسان اللہ کا مسلسل شکر بھی کرتا رہے کہ اللہ نے اسے یہ چیزیں دی ہیں، لیکن آخرکار اس کا آخرت میں عذاب کا باعث بنیں تو وہ نعمت نہیں ہیں۔
سب سے بڑی نعمت، "وجود" کی نعمت: جب وجود کے کمالات (جیسے زیادہ طویل عمر، زیادہ عقل، زیادہ طاقت، زیادہ علم اور…)، انسان کو مطلوب ہیں تو خود وجود بڑھ چڑھ کر مطلوب ہے، اسی لیے ہر جاندار مخلوق کی کوشش رہتی ہے کہ جہاں تک ہوسکتا ہے اپنی حیات کو محفوظ رکھے حتی اگر کچھ لمحے زیادہ زندہ رہ سکتا ہے تو اسی زندہ رہنے کے لئے کوشش کرتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ زندگی سب سے زیادہ مطلوب چیز ہے، لہذا جیسے وجود کے کمالات انسان کو مطلوب ہیں اور انسان کے لئے نعمت ہیں اسی طرح اصل وجود اور زندگی بھی انسان کے لئے نعمت ہے، بلکہ سب سے بڑی نعمت ہے۔ اللہ تعالی نے جسے جو وجود اور حیات عطا کی ہے، یہ سب سے بڑی نعمت ہے جو اسے عطا فرمائی ہے۔ یہ جو خالق کائنات نے انسان کو خلق کیا ہے اور وہ وجود میں آگیا ہے، سب سے زیادہ یہ بات حمد طلب اور شکر طلب ہے، کیونکہ ہمارے پاس جو کچھ ہے وجود میں آنے پر موقوف ہے۔ جب انسان غور کرے کہ اللہ نے ہمیں وجود دیا، عقل و شعور دیا، صحت و سلامتی عطا فرمائی اور کئی دیگر بےشمار نعمتیں، تو اس وقت کہنا چاہیے: "الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى مَا أَنْعَمَ"، جیسا کہ حضرت صدیقہ طاہرہ (سلام اللہ علیہا) نے یہ کہتے ہوئے اپنے خطبہ کا آغاز کیا۔
نماز میں اللہ کے انعام سے ہمارا تعلق: ہم روزانہ نمازوں میں کم سے کم دس مرتبہ سورہ حمد پڑھتے ہیں اور عرض کرتے ہیں: "اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ . صِرَاطَ الَّذِينَ أَنعَمْتَ عَلَيهِمْ "[2]، "ہمیں سیدھے راستہ کی ہدایت فرماتا رہ، جو اُن لوگوں کا راستہ ہے جن پر تو نے نعمتیں نازل کی ہیں"، وہ کون ہیں جن پر اللہ نے نعمتیں نازل کی ہیں؟ سورہ نساء میں ارشاد الہی ہورہا ہے: "وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِيقًا"[3]، "اور جو بھی اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ رہے گا جن پر اللہ نے نعمتیں نازل کی ہیں یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین اور یہی بہترین رفقاء ہیں"۔ لہذا ہم سورہ حمد میں اللہ سے صراط مستقیم کی ہدایت طلب کرتے ہیں اور صراط مستقیم بھی ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر اللہ نے نعمتیں نازل کی ہیں اور وہ لوگ یہ چار گروہ ہیں: انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین، بنابریں صراط مستقیم ان چار گروہوں کا راستہ ہے۔ جو شخص اللہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرے گا وہ ان چار گروہوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے نعمتیں نازل کی ہیں اور صراط مستقیم ان کا راستہ ہے۔
قرآن کریم میں نعمتوں کا تذکرہ: اللہ تعالی کی نعمتیں اتنی زیادہ ہیں کہ انسان ان کو شمار کرنے سے عاجز ہے، لہذا قرآن کریم نے الگ الگ سورتوں میں دو مرتبہ فرمایا ہے: "وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا [4]"، "وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا [5]"، " اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کر سکتے"۔ خالق کائنات نے قرآن مجید میں بعض نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے جیسے: پہاڑ جنہوں نے زمین کے توازن کو برقرار کررکھا ہے، بارش جو مردہ زمین کو زندہ کرکے اس سے نباتات اگاتی ہے، بدن کے مختلف اعضاء جیسے آنکھیں، زبان اور ہونٹ اور اسی طرح دیگر مادی نعمتیں۔ کئی معنوی نعمتوں کا بھی تذکرہ کیا ہے، جیسے:
نعمت ولایت: سب سے بڑی نعمت جو خاص اہمیت کے ساتھ ذکر ہوئی ہے اور اس کی ناشکری کرنا منع ہے، نعمت ولایت ہے، کیونکہ آیت "الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا[6]"، "آج میں نے تمہارے لئے دین کو مکمل کر دیا ہے۔ اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمہارے لئے دین کی حیثیت سے اسلام کو پسند کر لیا ہے"، لہذا ولایت کی نعمت ایسی نعمت ہے جو دین کے مکمل ہونے اور نعمت کے تمام ہونے کا باعث ہے اور علامہ طباطبائی (علیہ الرحمہ) کا کہنا ہے کہ جہاں بھی نعمت، قید کے بغیر ذکر ہوئی ہے، اس سے مراد نعمت ولایت ہے۔[7] سورہ تکاثر میں جو اللہ تعالی نے فرمایا ہے: "ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ"[8]، "اور پھر تم سے اس دن ضرور نعمت کے بارے میں سوال کیا جائے گا" کے بارے میں حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "نحن النعيم[9]"، "ہم نعمت ہیں" تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اہل بیت (علیہم السلام) کے بارے میں لوگوں سے ضرور بضرور سوال کیا جائے گا۔
نیز پروردگار عالم نے قرآن کریم میں کئی دیگر نعمتوں کی یاددہانی کی ہے جیسے نبوت کی نعمت[10]، امن و امان کی نعمت[11]، وحدت کی نعمت[12]، غیبی امداد[13]، کافروں پر فتح حاصل کرلینے کی نعمت[14]، آزادی کی نعمت۔[15]
نتیجہ: حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے خطبہ فدکیہ میں اللہ کی حمد کی ہے ان نعمتوں پر جو اللہ تعالی نے عطا فرمائی ہیں۔ اللہ تعالی کی نعمتیں اتنی زیادہ ہیں کہ انسان ان کو گننے سے عاجز ہے اور جتنا زیادہ غور کرتا رہے اتنی زیادہ سے زیادہ نعمتوں سے روشناس ہوگا اور جتنی زیادہ نعمتوں کو پہچانے گا اتنی پروردگار کے بارے میں اس کی معرفت بڑھتی جائے گی لہذا اللہ کی حمد و تعریف کرنا اپنے اوپر ضروری سمجھے گا، اس طریقہ کا درس سیدہ کونین (سلام اللہ علیہا) کے اس بیان سے ہمیں ملتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] احتجاج، طبرسی، ج1، ص131، 132۔
[2] سورہ حمد، آیت 6،7۔
[3] سورہ نساء، آیت 69۔
[4] سورہ نحل، آیت 18۔
[5] سورہ ابراہیم، آیت 34۔
[6] سورہ مائدہ، آیت 3۔
[7] المیزان، ج۵، ص184۔
[8] سورہ تکاثر، آیت 8۔
[9] بحار الأنوار، علامہ مجلسی، ج24، ص52۔
[10] سورہ مائدہ، آیت 20۔
[11] سورہ انفال، آیت 26۔
[12] سورہ آل عمران، آیت 103۔
[13] سورہ احزاب، آیت 9۔
[14] سورہ مائدہ، آیت 11۔
[15] سورہ ابراہیم، آیت 6۔ اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کر سکتے
Add new comment