مَنْ كٰانَ في حٰاجَةِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ كٰانَ اللهُ فِي حٰاجَتِهِ؛”جو شخص خداوندعالم کی حاجت(۳۱) کو پورا کرنے کی کوشش کرے تو خداوندعالم بھی اس کی حاجت روائی اور اس کی مرادوں کو پوری کردیتا ہے“۔[بحار الانوار، ج51، ص331، ح 56۔]اس حدیث کو شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے اپنے پدر بزگوار سے، انھوں نے سعد بن عبد اللہ سے، انھوں نے ابوالقاسم بن ابو حلیس (حابس) سے انھوں نے حضرت امام مھدی علیہ السلام سے نقل کیا ہے۔ امام علیہ السلام نے حلیسی کے خلوص اور عام طور پر اس اخلاقی نکتہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے: جو شخص خداوندعالم کی حاجت کو پورا کرنے کی کوشش کرے تو خداوندعالم بھی اس کی حاجت روائی کرتا ہے اور اس کی مرادوں کو پوری کردیتا ہے۔
خداوندعالم کی حاجت سے مراد اس حدیث کے دوسرے حصہ میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی خلوص نیت کے ساتھ زیارت کرنا ہے، لیکن امام زمانہ علیہ السلام نے اس کو ایک عام قانون کی صورت میں بیان کیا ہے اور امام حسین علیہ السلام کی زیارت کو اس کا ایک مصداق قرار دیا ہے، یعنی اگر انسان ان کاموں کو انجام دے جن کا انجام دینا مطلوب اور جن کے سلسلہ میں خدا کا حکم ہو، اس وجہ سے اس کو ”خداوندعالم کی حاجت اور طلب“ کھا جاسکتا ہے، لہٰذا خداوندعالم بھی انسان کے کاموں کی اصلاح کردیتا ہے۔اس بات کی یاددہانی مناسب ہے کہ خداوندعالم کسی چیز کا محتاج نہیں ہے بلکہ وہ قاضی الحاجات یعنی حاجتوں کا پورا کرنے والا ہے اور تمام مخلوق سراپا اس کی محتاج ہے۔ جیسا کہ خداوندعالم نے ارشاد فرمایا: یَااٴَیُّهَا النَّاسُ اٴَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَی اللهِ وَاللهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِیدُ؛”انسانو! تم سب اللہ کی بارگاہ کے فقیر ہو اور اللہ صاحب دولت اور قابل حمد و ثنا ہے“۔[سور ہ فاطر، آیت15۔]اس حدیث میں خداوندعالم کی حاجت کی طرف اشارہ ہوا، اس کی وجہ یہ ہے کہ خداوندعالم کی حاجت مخلوق کی حاجت میں ہے، دوسرے لفظوں میں یوں کھا جائے کہ جس شخص نے لوگوں کی حاجت روائی کی گویا اس نے خدا کی حاجت پوری کی ہے۔اس حدیث میں دوسرا احتمال یہ پایا جاتا ہے کہ ”خدا کی حاجت“ سے مراد خداوندعالم کے احکام مراد ہوں، چاہے وہ امر ہو یا نھی، جن کو خداوندعالم چاہتا ہے، اور اگر کوئی شخص خدا کے احکام کی اطاعت کرے تو خداوندعالم بھی اس کی حاجت پوری کرتا ہے۔
منابع:بحار الانوار۔
Add new comment