خلاصہ: معصوم کی روایت کے مطابق جو مؤمن اپنے مؤمن بھائی کی فکر میں نہیں رہتا ان کے درمیان کوئی ولایت نہیں ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اسلام کی تعلیمات میں سے یہ ہے کہ اگر خداوند متعال سے کسی چیز کو طلب کرنا ہے تو پہلے دوسرے کے لئے طلب کریں, اس کے بعد اپنے لئے، روایتوں میں وارد ہوا ہے کہ صرف اپنے لئے دعا مانگنا مکروہ ہے، جیسا کہ حضرت علی(علیه السلام) اس روایت میں فرمارہے ہیں: «فَأَحْبِبْ لِغَيْرِكَ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ وَ اكْرَهْ لَهُ مَا تَكْرَهُ لِنَفْسِك، جو اپنے غیر کے لئے پسند کرتے ہو وہی اپنے لئے بھی پسند کرو، اور جو چیز تم کو اپنے لئے پسند نہیں ہے اسے دوسروں کے لئے بھی پسند مت کرو»[تحف العقول، ص۷۴]، دوسری حدیث میں امام صادق(علیہ السلام) فرمارہے ہیں: «مَنْ كانَ فی حاجَةِ أخیهِ الْمؤمِنِ المسلِمِ كانَ اللهُ فی حاجَتِهِ ما كانَ فی حاجَةِ أخیهِ، جو کوئی اپنے مؤمن بھائی کی حاجت کو پورا کرنے کی فکر میں ہوتا ہے، اللہ تعالی اس شخص کی حاجت کو پورا کرنی کی فکر کرتا ہے»[الاماليطوسي، ص۹۷]۔
ایک شیعہ اور اہل بیت(علیہم السلام) سے محبت کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے مؤمن بھائیوں کی حاجت اور پریشانیوں کو دور کرنے کی فکر میں رہے تاکہ امام صادق(علیہ السلام) نے جو یہ فرمایا ہے وہ ہمارے لئے صادق نہ آئے "جو اپنے موؤمن بھائی کی فکر میں نہ ہو اس کے اور ہمارے درمیان کوئی ولایت نہیں ہے"[مستدرك الوسائل و مستنبط المسائل، ج۱۲، ص۴۳۴]۔
اگر ہم حقیقی طور پر معصومین(علیہم السلام) کی ولایت کا اقرار کرتے ہیں تو ہمارے لئے اس اقرار کا ثبوت پیش کرنے کا ایک ذریعہ اپنے مؤمن بھائی کی مدد کرنا ہے۔
*تحف العقول،حسن بن على، ص۷۴، جامعه مدرسين، ۱۴۰۴ق.
*الامالي( للطوسي)، محمد بن الحسن، ص۹۷، دار الثقافة، ۱۴۱۴ق.
*مستدرك الوسائل و مستنبط المسائل،حسين بن محمد تقى، ج۱۲، ص۴۳۴، مؤسسة آل البيت(عليهم السلام)، ۱۰۸ق۔
Add new comment