خلاصہ: انسان جب کسی کام کے متعلق پریشان میں مبتلا ہوجاتا ہے تو اسے چاہیے کہ قرآن و روایات کی روشنی میں اس کا حل تلاش کرے، اس مضمون میں اس کا حل بتایا جارہا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ)سے مروی ہے: "مَنْ حَزَنَهُ أَمْرٌ تَعَاطَاهُ فَقَالَ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ-وَ هُوَ مُخْلِصٌ لِلَّهِ يُقْبِلُ بِقَلْبِهِ إِلَيْهِ لَمْ يَنْفَكَّ مِنْ إِحْدَى اثْنَتَيْنِ إِمَّا بُلُوغِ حَاجَتِهِ فِي الدُّنْيَا وَ إِمَّا يُعَدُّ لَهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَ يُدَّخَرُ لَدَيْهِ- وَ ما عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ وَ أَبْقى لِلْمُؤْمِنِين"، "جسے کوئی کام پریشان اور اپنے میں مصروف کرلے تو وہ اللہ کے لئے اخلاص کے ساتھ اور دل کو اللہ کی طرف متوجہ کرتے ہوئے بسم اللہ الرحمن الرحیم کہے تو دو (صورتوں) میں سے ایک اس کے لئے ضرور ہوگی: یا دنیا میں اپنی حاجت تک پہنچ جائے گا یا اس کے لئے اس کے پروردگار کی بارگاہ میں شمار ہوگی اور اس کے لئے ذخیرہ کردی جائے گی اور جو اللہ کے پاس ہے وہ مومنین کے لئے بہتر اور زیادہ باقی رہنے والی ہے"۔ [التوحيد، ص ۲۳۲]
اس روایت سے متعلق چند غورطلب نکات:
۱۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم، پریشانی کا علاج اور حاجت برآوری کا طریقہ کار ہے۔
۲۔ آدمی جب کسی ایسے کام میں پھنس جاتا ہے جو اس کے لئے پریشانی کا باعث ہے، تو دوسروں کو برا بھلا کہنے اور پریشانی میں ڈوب ڈوب کر وقت ضائع کرنے کے بجائے، اسلامی تعلیمات اور اہل بیت (علیہم السلام) کی ہدایات کے چراغوں میں سے اس چراغ کو تلاش کرے جو اس کی مشکل سے متعلق اور اس کا حل ہے۔
۳۔ اسلامی تعلیمات میں جیسے جسمانی امراض کے نسخے بتائے گئے ہیں، اسی طرح روحانی امراض کے بھی نسخے بتائے گئے ہیں۔
۴۔ جسے کوئی کام پریشان اور اپنے میں مصروف کرلے تو اس کا نسخہ زبان اور دل سے متعلق ہے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم کو زبان پر جاری کرنا ہے اور اسی جملہ کو اللہ کے لئے اخلاص کے ساتھ اور دل کو اللہ کی طرف متوجہ کرتے ہوئے بولنا ہے، لہذا بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے ہوئے اخلاص اور قلبی توجہ دونوں ہونی چاہئیں۔
۵۔ اس پریشان آدمی کی حاجت دو میں سے کسی ایک موقع پر ضرور پوری ہوگی: یا دنیا میں یا بارگاہ الٰہی میں۔
۶۔ انسان جب حاجت طلب کرتا ہے تو چاہتا ہے کہ جلد از جلد پوری ہوجائے، لیکن نہیں جانتا کہ اس کا فائدہ جلد پوری ہونے میں ہے یا دیر سے پوری ہونے میں۔
۷۔ اس روایت میں بتایا جارہا ہے کہ حاجت روائی ہوسکتا ہے دنیا میں ہوجائے لیکن اگر اللہ کی بارگاہ میں ہو تو دو خصوصیتوں کی حامل ہے اور دو فائدوں کی حامل ہے۔ دو خصوصیتیں یہ ہیں: اللہ کی بارگاہ میں اس شخص کے لئے حاجت شمار ہوگی اور اس کے لئے ذخیرہ کردی جائے گی۔ دو فائدے یہ ہیں: جو چیز اللہ کے پاس ہے وہ مومنین کے لئے بہتر بھی ہے اور زیادہ باقی رہنے والی بھی ہے۔
۸۔ یہاں پر مومن ہونے کی شرط لگائی گئی ہے یعنی یہ بہتر ہونا اور زیادہ باقی رہنا مومنین کے لئے ہے۔
۹۔ اس روایت میں تین شرطیں ذکر ہوئی ہیں: دو شرطوں کا تعلق بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنے سے ہے یعنی اللہ کے لئے اخلاص اور دل سے اللہ کی طرف متوجہ ہونا اور ایک شرط کا تعلقاللہ کی بارگاہ میں حاجت روائی ہونے سے ہے یعنی مومن ہونا۔
۱۰۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم باعظمت جملہ ہے اور زیادہ استعمال ہونے کی وجہ سے یہ نہ سمجھا جائے کہ معمولی سا جملہ ہے، بلکہ اس میں بہت سارے حقائق اور معارف پائے جاتے ہیں، جن میں سے بعض معارف و حقائق کی نقاب کشائی روایات کی روشنی میں ہوتی ہے، لہذا اس کو باعظمت سمجھنا چاہیے اور مذکورہ شرائط کے ساتھ پڑھ کر اس سے فیضیاب ہونا چاہیے۔
.............................
[التوحید، شیخ صدوق، الناشر: جماعة المدرّسين في الحوزة العلمية، ص۲۳۲]۔
Add new comment