خلاصہ: دین اسلام ہی انسان کے دینی اور دنیاوی مسائل کو حل کرسکتا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ حکومت کا نظام، ولایت فقیہ کا نظام ہو۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نفسانی خواہشات میں ڈوبے ہوئے لوگ پیسے اور طاقت کے زور پر لوگوں پر حکمرانی کرنے لگے تو لوگوں نے سمجھ لیا کہ کون زیادہ مشہور ہے اور اصلاح کے لئے بہتر وعدے دیتا ہے تو سیاست کے لائق بھی وہی ہے، جبکہ ایسا نہیں ہے۔
جو دین کے بغیر منصبِ حکومت پر بیٹھ جائے اگرچہ وہ ظاہری طور پر کچھ مسائل کو حل کردے، مگر وہ لوگوں کا خیرخواہ نہیں ہوسکتا، کیونکہ وہ اپنی خواہشات اور آرزوؤں کو پورا کرنے کے لئے حکمران بنا ہے، نہ کہ لوگوں کی مشکلات کو حل کرنے کے لئے ورنہ اپنے سے زیادہ لائق اور باصلاحیت شخص کو تلاش کیوں نہیں کرتا؟!
اس کے عاجز و ناتوان ہونے کی بنیادی دلیل یہ ہے کہ لوگوں کے دنیاوی مسائل اور مشکلات تب تک حل نہیں ہوسکتیں جب تک دین اسلام کی تعلیمات پر عمل نہ کیا جائے۔ دین اسلام کیونکہ انسانوں کی دنیا اور آخرت دونوں کا تحفظ کرتا ہے جیسا کہ مولائے کائنات امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کا ارشاد گرامی ہے: "الدّینُ یَعْصِمُ"، "دین (انسان کی) حفاظت کرتا ہے"، [غررالحکم، ح۱]، لہذا جو حکمران دین پر عمل نہیں کرتا وہ لوگوں کی حتی دنیاوی مشکلات کو بھی حل نہیں کرسکتا۔
اسی لیے ہمیں چاہیے کہ صرف اپنے ذاتی مسائل کو نہ دیکھیں، بلکہ سب مسائل کی جڑ کو دیکھیں کہ ایسا نہیں ہے کہ میرے مسائل حل کیوں نہیں ہورہے، بلکہ اس بات پر غور کیا جائے کہ سب لوگوں کے مسائل کیوں حل نہیں ہوتے؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ صرف دین اسلام، مسائل اور مشکلات کو حل کرسکتا ہے اور دین اسلام کے ذریعے مسائل تب حل ہوسکتے ہیں کہ منصبِ حکومت پر ولی فقیہ یا اس کا نمائندہ بیٹھے اور لوگوں کے دین اور دنیا کا وہی راہنما ہو، ورنہ ایک مسئلہ بہت محنت و کوشش کے ساتھ حل ہو بھی جائے تو اس کے بعد کئی دیگر مسائل کھڑے ہوسکتے ہیں، اسی لیے مشکلات کی جڑ پر غور کرنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[غررالحکم و دررالحکم، آمدی]
Add new comment