صاحب فدک اور صاحب غدیر کے حق پر غاصبانہ قبضہ

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: ۱۴ ذی الحجہ وہ دن ہے جس میں مختلف سالوں میں یہ دو واقعات پیش آئے: ۱۴ ذی الحجہ کو حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالی کے حکم کے مطابق فدک بخشا اور ۱۴ ذی الحجہ کو ہی مکہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلمانوں کی کثیر تعداد کو لے کر غدیر خم کے میدان کی طرف روانہ ہوئے۔

صاحب فدک اور صاحب غدیر کے حق پر غاصبانہ قبضہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جس دور میں بھی اللہ تعالی نے کسی عظیم ہستی کو کوئی بلند مقام عطا فرما کر بھیجا، اس کے مقام پر دنیاپرست، تخت و تاج کے لالچی اور حسد کرنے والوں نے طرح طرح کی کوششیں کیں کہ ان عظیم ہستیوں سے ان کا حق چھین کر اپنے قبضہ میں لے لیں، چاہے انہیں اپنے مقصد تک پہنچنے کے لئے دین کو مکمل طور پر پامال کرنا پڑے۔ لہذا صفحہ دہر اور تاریخ کے چہرہ پر جگہ جگہ ایسے سیاہ دھبے پڑے ہوئے ہیں کہ جس زمانہ میں بھی حجت الہی نے زمین پر قدم رکھتے ہوئے حق کو قائم کرنے کی کوشش کی تو باطل بھی ناپاک عزائم کی بنیاد پر مقابلہ کے میدان میں کود پڑا اور حق کی آواز کو کھلم کھلا یا منافقت کا لبادہ اوڑھ کر کچلنا شروع کردیا۔ کبھی قابیل آیا جس نے اپنے بھائی ہابیل (علیہ السلام) کو شہید کردیا، کبھی فرعون آیا جس نے حضرت موسی (علیہ السلام) سے سخت دشمنی کی، کبھی سامری آیا جس نے گوسالہ بنا کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہوئے موسی کلیم اللہ کی توحیدی تعلیمات کو پامال کردیا، کبھی نمرود نے آگ بھڑکا دی تا کہ اس میں ابراہیم خلیل الرحمن کو جلادے، کبھی یہودی اسلام سے ٹکرائے مگر فاتح خیبر حیدر کرار کی شجاعت کے رعب نے ہی ان کے دلوں پر شکست کی ایسی ضرب دے ماری جس سے انہوں نے صلح کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ پایا، لہذا ۷ ہجری میں انہوں نے فدک کے آدھے رقبہ کی آمدنی کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معاہدہ کیا کہ آنحضرت کو دیا کریں گے۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مالک کائنات کے حکم سے فدک اپنی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کو بخش دیا۔ یہ بخشش ایک نقل کے مطابق ۱۴ ذی الحجہ کو واقع ہوئی۔
اور کبھی ابوجہل، ابولہب اور ابوسفیان نے اپنا متکبرانہ سراٹھایا جنہوں نے خاتم الانبیاء والمرسلین سے دشمنی کرتے ہوئے کفر و شرک اور باطل کی بنیادیں مضبوط کردیں۔ مگر جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ کو فتح کیا تو ابراہیم زمان امیرالمومنین (علیہ السلام) نے دوش رسالت پر کھڑے ہوکر عظیم بت شکنی کا دوسرا مرحلہ جاری کردیا، بتوں کو یکے بعد دیگرے زمین بوس کیا، جس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی:  "قُلْ جاءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْباطِلُ إِنَّ الْباطِلَ کانَ زَهُوقاً [1]"،" اور کہہ دیجئے کہ حق آگیا اور باطل فنا ہوگیا کہ باطل بہرحال فنا ہونے والا ہے  "۔ اس عظیم بت شکن نے مشرکین کے بے جان معبودوں سے اللہ کے گھر کو بحکم رسالت پاک کردیا، شرک کے نقوش کو کعبہ سے مٹا دیا، وہ معاشرہ جس میں انسانی اقدار مرچکی تھیں اور سراسر جاہلیت سے لیس مشرک، آئے دن کسی من گھڑت رسم کا جنازہ کندھے پر اٹھائے ہوئے کعبہ کے اردگرد تشییع کرتے تھے، نفس رسول (ص) نے اس معاشرے کو اس طرح سے حیات دی کہ اس مردہ انسانیت کے جنازے میں روح واپس پلٹ آئی، سوئی ہوئی فطرتیں جاگ اٹھیں، آفتاب انسانیت کا ڈوبا ہوا سورج پلٹ آیا، عصر جاہلیت کی مغرب کا وقت آگیا اسی لیے ایمان، علم، عقل اور معرفت الہی کے سورج نے مشرق عالم سے طلوع کیا،  اللہ کے دین کو فروغ ملا، اسلام کا علم لہرانے لگا، اور رسالت کی آب وحی میں دھلی ہوئی زبان سے اور ولایت کے دست یداللہی کے ذریعے جو محسن اسلام کی تربیت و پرورش کا ماحصل تھا، توحید پروردگار کی صدا، فضائے عالم میں گونجنے لگی، باطل کی تمام محنتیں خاک میں مل گئیں، شیطانی ساز و آواز دب گئیں اور کعبہ کی چھت سے اذان کی آواز بلند ہوئی۔ حق کا یہ قیام اور باطل کی یہ نابودی ۸ ہجری میں ہوئی۔ زمانہ گزرتا رہا، صدائے حق دوردراز تک پہنچتی رہی اور توحید کی آواز نے اللہ کی دھرتی پر وسیع پیمانے پر پھیلتے ہوئے اتنے لوگوں کو اپنی طرف مجذوب کرلیا کہ مختلف علاقوں کے لوگ مسلمان ہوگئے اور ۱۰ ہجری میں انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآؒلہ وسلم) کے ساتھ مل کر حج کیا۔
اس کے بعد ۱۴ ذی الحجہ کو تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار مسلمانوں کا جم غفیر، نبیوں کے سردار کی سربراہی میں غدیر خم کے میدان کی طرف روانہ ہوا، یہ سفر پانچ دن کا تھا یہاں تک کہ عالم اسلام کا یہ عظیم کارواں اور حاجیوں کا تاریخی مجمع ۱۸ ذی الحجہ کو غدیر خم کے مقام پر آپہنچا، جہاں پر ولایت کے اعلان کرنے اور اقرار لینے کے ذریعے دین مکمل ہونا تھا اور نعمت تمام ہونی تھی، وہی دین اسلام اور وہی نعمت جن کی تکمیل اور اتمام پر ذات احدیت نے اپنی رضامندی کا اعلان کردیا۔ سب نے بیعت کرلی اور جس نے اعتراض کیا اور عذاب طلب کیا، اس پر عذاب الہی نازل ہوگیا۔
لوگوں نے "امیرالمومنین" کہہ کر حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) سے بیعت کی اور بعض لوگوں نے تو "بخ بخ" (مبارک ہو، مبارک ہو) کہہ کر "امیرالمومنین" کہتے ہوئے بیعت کی۔ لیکن بخ کے دعویداروں کے دل میں بیعت کرتے ہوئے کیا گزر رہا تھا؟ تاریخ کے صفحات نے ورق گردانی کرتے ہوئے ان کے چہرے سے نقاب ہٹا کر ان کی منافقت کی ترجمانی کردی کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے بعد انہی لوگوں نے مسند خلافت پر غاصبانہ قبضہ کرتے ہوئے فدک کو غصب کرلیا اور واقعہ غدیر سے عملی مخالفت کرتے ہوئے بیعت توڑ دی۔ وہی فدک جو ۱۴ ذی الحجہ کو پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیٹی فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کو بخشا تھا اور وہی واقعہ غدیر جس کے لئے ۱۴ ذی الحجہ کو مکہ سے روانہ ہوئے اور آنحضرت نے ولایت امیرالمومنین (علیہ السلام) کا اعلان کرتے ہوئے لوگوں سے بیعت لی تھی۔ جیسے ہر دور میں ظالموں اور غاصبوں کا سلسلہ جاری رہا اور وہ مظلوموں، حقداروں اور اللہ کی منتخب ہستیوں کا حق چھینتے رہے، اس موقع پر بھی فدک کو غصب کرلیا گیا جبکہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اللہ تعالی نے آیت نازل کرتے ہوئے حکم دیا کہ " وَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ "[2]، " اور قرابتداروں کو اس کا حق دے دو "۔ چنانچہ معروف صحابی ابوسعید خدری کا کہنا ہے کہ " لَمّا نَزَلَ قَوْلُهُ تَعالى وَ آتِ ذَا الْقُرْبى حَقَّهُ أَعْطى رَسُولُ اللّهِ(صلى الله عليه وآله)فاطِمَةَ فَدَكاً [3]" ، "جب اللہ تعالی کا یہ فرمان کہ اور قرابتداروں کو اس کا حق دے دو، نازل ہوا تو رسول اللہ (ص) نے فدک، حضرت فاطمہ کو عطا کردیا"۔ لہذا غدیر اور فدک کے ان دو مظلوموں کے حق کے غصب ہونے پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ:
- ایک کو اللہ تعالی نے ذوالفقار عطا فرمائی تو اس نے حیات رسالت کے دوران ذوالفقار سے اسلام کی حفاظت کی اور دوسرے کو اللہ تعالی نے جو ذوالفقار (فدک) عطا فرمائی، اس نے وصال رسالت کے بعد اپنی اس ذوالفقار کے ذریعہ اسلام اور ولایت کا تحفظ کیا۔
- غاصبوں نے ایک سے فدک غضب کیا تو دوسرے سے خلافت غصب کی۔
- ایک سے حق چھین کر اسے شہید کردیا تو دوسرے سے حق چھین کر اسے طویل عرصہ کے لئے خانہ نشین کردیا۔
- ایک سے حق غصب کرکے اس کے پہلو میں میخیں پیوست کردیں اور جلتا ہوا دروازہ گرا کر اس کے پہلو کو شکستہ کردیا اور دوسرے کا حق غصب کرکے اس کی گردن میں رسن ڈال دی۔
- ایک سے حق غصب کرکے اس کے بازو پر تازیانے مارے تو دوسرے کی گردن پر تلوار رکھ کر اس سے زبردستی بیعت کا مطالبہ کیا۔
- ایک نے قرآن کو لے جا کر پیش کیا تو اس کے تحریر کردہ قرآن کو پلٹا دیا گیا اور دوسرے نے اپنے حق کے ثبوت کی تحریر پیش کی، تو اس تحریر کو پھاڑ دیا گیا۔
- ایک کے دست ولایت کو بلند کیا گیا تو اس سے بیعت کرنے کے بعد بیعت کو توڑ دیا گیا اور دوسرے نے ولایت کا تحفظ کیا تو اس کے بازو پر تازیانے مارے گئے۔
- ایک نے پچیس سال کی خاموشی اختیار کی تو دوسرا غضب کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوگیا۔
- ایک نے رو رو کر بیت الاحزان کو اپنا عزاخانہ بنایا تو دوسرے نے اس کی قبر کو اپنے رونے کے لئے عزاخانہ بنایا۔
- فدک، غدیر کی ڈھال تھی، خلافت کے غاصبوں کے غاصب ہونے کا ثبوت، فدک پر غاصبانہ قبضہ ہے۔
- اور بالآخر دونوں سے حق چھین کر، دونوں کی تصویر کو مٹا دیا گیا یعنی ان کے  بیٹے کو دنیا میں آمد سے پہلے شہید کردیا گیا۔ "وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ "[4]۔ کل تک تاریخ اس بات پر آنسو بہا رہی تھی کہ فلاں کو بڑھاپے کے اس حصہ میں شہید کیا گیا اور فلاں کو کمسنی میں، مگر آج تاریخ اس بات پر خون کے آنسو رونے لگی کہ اس ظالم سے بڑھ کر اور کون ظالم ہوگا جس نے اس کو بھی شہید کردیا جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔
نتیجہ: فدک اور غدیر کا آپس میں ایک باہمی تعلق یہ ہے کہ جو فدک ۷ ہجری، ۱۴ ذی الحجہ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کو بخشا تھا، غاصبوں نے اسے چھین لیا اور سیدۃ نساء العالمین کے واضح دلائل اور بیانات کو جھٹلا دیا، اور جس خلافت کے اعلان کے لئے ۱۰ ہجری، ۱۴ ذی الحجہ کو مکہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلمانوں کو ساتھ لے کر غدیر خم کے میدان کی طرف روانہ ہوئے تھے، اس خلافت کو غاصبوں نے حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) سے چھین لیا اور غدیر کے اعلان ولایت کو دیدہ دانستہ فراموش کرتے ہوئے بیعت توڑ دی اور اگر زیادہ گہری نظر سے دیکھا جائے تو حقیقت کچھ اور ہے! وہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے پرانے اور مدتوں سے تیار کردہ منصوبہ پر عمل کرتے ہوئے خلافت اور فدک کو غصب کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] سورہ اسرا، آیت 81
[2] سورہ اسرا، آیت 26
[3] شواہد التنزیل، حسکانی، ج1، ص438
[4] سورہ تکویر، آیت 8 ، 9۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
3 + 3 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 42