خطبہ فدکیہ پر طائرانہ نظر

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: خطبہ فدکیہ حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کا وہ خطبہ ہے جو فدک کے غصب ہونے کے بعد آپؑ نے مسجد النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ارشاد فرمایا، جو مخلتف عناوین پر مشتمل تھا، اللہ کی حمد و شکر و ثنا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اپنا اور حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کا تعارف، قرآن کریم، شرعی احکام، اپنا ارث، توحید، نبوت، امامت اور معاد جیسی تعلیمات کو مختلف حصوں میں بیان فرمایا ہے۔

خطبہ فدکیہ پر طائرانہ نظر

بسم اللہ الرحمن الرحیم

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انتہائی غم انگیز وصال کے بعد ایسے دو عظیم واقعات رونما ہوئے جن سے قیامت کی صبح تک کی تاریخ متاثر رہے گئی۔ ان دو واقعات نے مستقبل کے حالات کو بالکل بدل کر رکھ دیا اور اسلامی معاشرے کی صورتحال کو ماضی کے برعکس کردیا، ایک سقیفہ کی محفل کا انعقاد اور خلافت کا غصب ہونا ہے اور دوسرا فدک کا غصب ہونا ہے۔
شیعہ اور اہلسنت کے کئی مفسرین جیسے شیخ طوسی[1]، طبرسی[2]، حسکانی[3] اور سیوطی[4] نے آیت "وَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ"[5]، "اور قرابتداروں کو ان کا حق دے دو" کے ذیل میں واضح طور پر تحریر کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فدک، حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کو دیدیا"۔
خلیفہ وقت نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے فدک پر قبضہ کرلیا اور اس نے خلیفہ بننے کے چند دن بعد اعلان کیا کہ فدک، ذاتی ملکیت نہیں ہے اور بیت المال کا حصہ ہے اور پیغمبرؐ کی بیٹی کے پاس نہیں رہنا چاہیے، لہذا حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے عملہ کو فدک سے نکال دیا۔ جب حضرت صدیقہ طاہرہ (سلام اللہ علیہا) کی حق طلبی کو ابوبکر نے ٹھکرا دیا، نہ چادر تطہیر اوڑھنے والی مطہر مستور کا دعوی قبول کیا اور نہ تو گواہوں کی گواہی مانی اور نہ ہی دیگر ثبوت اور دلائل کو تسلیم کیا اور حقدار کو حق واپس نہ پلٹایا تو سیدہ کونینؑ، مسجد النبیؐ میں داخل ہوئیں اور اس غصب کی حقیقت کو واضح کرنے، فدک کو واپس لینے اور حقیقی خلیفہ کی خلافت کو ثابت کرنے کے لئے خطبہ ارشاد فرمایا۔
بنت رسولؐ نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے حجت تمام کردی تا کہ کوئی شخص عذر و بہانہ پیش نہ کرپائے کہ ہم آپؑ کے مقام و عظمت کو نہیں جانتے تھے۔ آپؑ نے ارث کے متعلق قرآنی آیات کے ذریعہ اپنا حق ثابت کرتے ہوئے خلیفہ کو لاجواب کردیا، مگر خلیفہ نے من گھڑت حدیث کے ذریعے جواب دیا، جبکہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسی بات نہیں فرمائی تھی، جیسا کہ بخاری نے اپنی کتاب صحیح میں نقل کیا ہے کہ جب ابوبکر نے فاطمہؑ سے کہا کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ہے کہ ہم انبیاء ارث نہیں چھوڑتے اور جو کچھ ہم سے باقی رہ جاتا ہے صدقہ ہے تو فاطمہؑ غضبناک ہوئیں اور ابوبکر سے رخ موڑ لیا اور یہ رخ موڑنا آپؑ کی وفات کے وقت تک جاری رہا۔[6] حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کا غضب اور ناراضگی اس وجہ سے اہمیت کی حامل ہے کہ نہ صرف شیعہ بلکہ اہلسنت جن میں سے سرفہرست صحیح بخاری ہے، نے بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت نقل کی ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا: "فاطمہ میری لختِ جگر ہیں، جو اُن کو غضبناک کرے اس نے مجھے غضبناک کیا ہے"[7]۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ ان دونوں باتوں کو بخاری، صحیح میں نقل کربیٹھے ہیں مگر کتاب کے الگ الگ جگہوں پر۔
خطبہ فدکیہ کو ابتدائے اسلام کی اہم ترین تاریخی حادثات کی دستاویزات میں سے شمار کیا جاسکتا ہے جو اعتقادی، معاشرتی اور سیاسی حالات کی چھان بیان کرنے کے لئے محکم دلائل پر مشتمل مضبوط سند ہے۔
خطبہ فدکیہ کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ اس خطبہ کو خطبہ غدیر کی یاددہانی کا باعث سمجھا جاسکتا ہے، جو غدیر کے سلسلہ کو جاری رکھنے اور قائم کرنے کا باعث ہے جس میں حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی حقانیت کو واضح کیا گیا ہے اور انصار و مہاجرین کی بیعت شکنی پر اعتراض کرتے ہوئے اہل بیت (علیہم السلام) کی ولایت اور حقانیت کو ثابت کیا گیا ہے۔
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے اس خطبہ میں قرآن کریم کی کئی آیات کا تذکرہ کیا ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ اہل بیت (علیہم السلام) کا قرآن سے باہمی رابطہ کس قدر گہرا ہے جو قرآن کے ظاہر و باطن اور تفسیر و تاویل کے علم کے حامل ہیں۔
خطبہ فدکیہ کو حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) نے نقل کیا ہے، آپؑ اُس وقت چار یا پانچ سالہ تھیں۔ ابوالفرج اصفہانی نے اپنی کتاب مقاتل الطالبیین میں حضرت زینب کبری (سلام اللہ علیہا) کے سوانح حیات میں خطبہ فدکیہ کی آپؑ سے نسبت دی ہے کہ یہ خطبہ آپؑ نے نقل کیا ہے اور کہا ہے: "والعَقیلة هی الّتی روی ابن عباس عنها کلام فاطمة فی فدک، فقال: حدثتنی عقیلتنا زینب بنت علی(ع)[8] "، "اور عقیلہ وہ ہیں جن سے ابن عباس نے فدک کے بارے میں فاطمہؑ کا کلام نقل کیا ہے، تو ابن عباس نے کہا: میرے لیے ہماری عقیلہ زینب بنت علی (علیہ السلام) نے بیان کیا ہے"۔ نیز ابن اثیر نے بھی جناب زینب کبری (سلام اللہ علیہا) سے اس خطبہ کو فصل احادیث الصّحابیات میں تفصیلی طور پر نقل کرتے ہوئے اس کے الفاظ کی وضاحت کی ہے۔[9]
اس خطبہ کو شیعہ اور اہلسنت علماء نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے جیسے: بلاغات النساء، ابن طیفور، السقیفة و فدک، ابوبکر احمد بن عبدالعزیز جوهری، شرح الاخبار، قاضی ابوحنیفه نعمان بن محمّد تمیمی، دلائل الامامة ابن جریر طبری، الاحتجاج طبرسی، مقتل الحسین علیه السلام، خطیب خوارزمی، شرح نهج البلاغه ابن ابی الحدید، من لایحضره الفقیه شیخ صدوق، بحارالانوار، علاّمه مجلسی  وغیرہ وغیرہ[10]۔
خطبہ فدکیہ کے عناوین:
اگلے مضامین میں حضرت سیدۃ نساء العالمین (سلام اللہ علیہا) کے خطبہ فدکیہ کی تفصیلی طور پر تشریح اور وضاحت بیان کی جائے گی (ان شاء اللہ)، لیکن فی الحال اس مضمون میں اس خطبہ کے صرف عناوین کو بیان کیے دیتے ہیں:
1۔ اللہ تعالی کی حمد و ثنا جو مندرجہ ذیل بحثوں پر مشتمل ہے: اللہ کی وحدانیت کی گواہی، اللہ تعالی کی صفات، رؤیت پروردگار، اللہ کی صفات کو بیان کرنا کا ناممکن ہونا، اللہ کی کیفیت کا ناممکن ہونا، مخلوقات کی خلقت اور ان کی کیفیت، اللہ کی قدرت اور مشیت، اللہ کی مخلوقات سے بے نیازی، اللہ کی اطاعت و معصیت۔
2۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تعارف جو مندرجہ ذیل بحثوں پر مشتمل ہے: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی گواہی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا برگزیدہ اور منتخب ہونا، بعثت، زمانہ جاہلیت میں لوگوں کے حالات، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت، رسالت کے مقاصد، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وصال۔
3۔ قرآن کریم کی صفات۔
4۔ احکام الہی کے مقرر ہونے کی حکمت۔
5۔ اپنا اور حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کا تعارف۔
6۔ عربوں کا ماضی اور بعثت کے زمانہ میں عربوں کی صورتحال۔
7۔ لوگوں سے شکوہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اسلام کی صورتحال۔
8۔ دشمن کی من گھڑت حدیث کی سیاست کو فاش کرنا۔
9۔ انصار کی مذمت۔
10۔ "ارث" کے موضوع کو قرآن و سنت کی روشنی میں بیان کرتے ہوئے دشمن کو لاجواب کردینا۔
11۔ اقتدار کے پیاسوں کو متنبہ کرنا۔
12۔ لوگوں پر حجت تمام کرنا اور اس ظلم کے انجام سے ڈرانا۔
نتیجہ: خطبہ فدکیہ درحقیقت، اہل بیت (علیہم السلام) کی مظلومیت کی بھی سند ہے اور ولایت کا بھی ہرطرف سے دفاع ہے اور نیز امت مسلمہ کو گمراہ ہونے سے نجات دینے کی بھرپور کوشش ہے۔ آپؑ نے خطبہ فدکیہ میں نقلی اور عقلی دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ فدک آپؑ کا حق ہے۔ نیز واضح رہے کہ جناب ام ابیہا (سلام اللہ علیہا) نے فدک کو واپس لینے کے علاوہ عقائد اور اسلام کی بنیادی تعلیمات، توحید، نبوت، امامت اور معاد کا تذکرہ کیا ہے اور محکم دلائل کے ذریعے حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی امامت، ولایت اور خلافت کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، ج6، ص468۔
[2] طبرسی، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، ج6، ص633-634۔
[3] حسکانی، شواهد التنزیل لقواعد التفضیل، ج‌1، ص438-439۔
[4] سیوطی، الدر المنثور، ج4، ص177۔
[5] سورہ اسراء، آیت 26۔
[6] صحیح البخاری، ج4، ص42۔
[7] صحیح البخاری، ج4، ص210۔
[8] مقاتل الطالبیین، ص 60۔
[9] منال الطالب، ص 501، 507۔
[10] فتوح البلدان، ج1، ص35؛ المغانم المطالبه، ص312؛ عمده الاخبار، ص394؛ وفاءالوفاء، ج3، ص999؛ معجم البلدان ج4، ص238۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 7 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 52