خلاصہ: حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے خطبہ فدکیہ کی تشریح کرتے ہوئے قرآن اور اہل بیت (علیہم السلام) کی احادیث کی روشنی میں شکر پر گفتگو ہورہی ہے۔ جس کے مطالعہ سے واضح ہوگا کہ شکر کی کتنی اہمیت ہے جو جناب سیدہ (سلام اللہ علیہا) نے اپنے خطبہ کی ابتدا میں اللہ کا شکر ادا کیا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
خطبہ فدکیہ کی تشریح کرتے ہوئے یہ پانچواں مضمون پیش کیا جارہا ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) جب اپنے بابا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مسجد میں عزت و عظمت کے ساتھ داخل ہوئیں تو گریہ کرنے لگیں، لوگ بھی آپؑ کے گریہ کی وجہ سے رونے لگے، جب لوگ خاموش ہوگئے تو آپؑ نے خطبہ شروع کرتے ہوئے اللہ کی حمد و ثناء کی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوات بھیجی، یہ سن کر لوگ دوبارہ رونے لگ گئے، جب انہوں نے خاموشی اختیار کی تو آپؑ نے دوبارہ اپنا خطبہ آغاز کیا، راوی کا کہنا ہے: "فَقالَتْ: اَلْحَمْدُلِلّهِ عَلی ما أنْعَمَ وَ لَهُ الشُّكْرُ عَلی ما أَلْهَمَ"…[1]، "آپؑ نے فرمایا: ساری حمد (تعریف) اللہ کے لئے ہے ان نعمتوں پر جو اس نے عطا فرمائیں اور اس کا شکر ہے اس (اچھی سمجھ) پر جو اس نے الہام کی (دل میں ڈالی) "…۔ حضرت صدیقہ طاہرہ (سلام اللہ علیہا) نے اس خطبہ کے ابتدائی فقروں میں اللہ تعالی کا شکر کیا ہے، لہذا اِس مضمون میں جناب سیدہ کونین (سلام اللہ علیہا) کے اس جملہ" وَ لَهُ الشُّكْرُ عَلی ما أَلْهَمَ"، " اور اس کا شکر ہے اس (اچھی سمجھ) پر جو اس نے الہام کی (دل میں ڈالی)" کے سلسلہ میں گفتگو کی جارہی ہے، البتہ اِس مضمون میں شکر پر قرآن، احادیث اور حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے خطبہ کی روشنی میں گفتگو ہورہی ہے اور الہام کے سلسلہ میں اگلے مضامین میں گفتگو ہوگی۔
شکر کا مفہوم: شکر، قرآنی اور اخلاقی اصطلاح ہے جو زبانی اور عملی طور پر اللہ تعالی کی نعمتوں سے شکریہ اور قدردانی کے معنی میں ہے۔ شکرلغوی لحاظ سے نعمت کی پہچان اور نعمت دینے والے کا شکریہ ادا کرنے کے معنی میں ہے۔[2] اور اصطلاحی طور پر اللہ کی نعمتوں کو یاد کرنے اور پہچاننے اور قلبی، زبانی اور عملی طور پر اظہار کرنے کے معنی میں ہے۔[3]
شکر قرآن کی روشنی میں:شکر کا قرآن کریم میں ۷۵ آیات میں مشتقات کے ساتھ تذکرہ ہوا ہے، جن میں سے ۶ الفاظ کی اللہ سے نسبت ہے (شاکر اور شکور) اور باقی الفاظ اسم فاعل اور مبالغہ، فعل ماضی، مضارع اور امر کی صورت میں ذکر ہوئے ہیں۔ قرآنی آیات کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ شکر کرنا سیدھے راستے کی طرف ہدایت پانے کا باعث بنتا ہے،[4] شکر کرنا خود انسان کے لئے فائدہ مند ہے اور شکر کرنا یا ناشکری کرنا، اللہ تعالی کو کوئی فائدہ یا نقصان نہیں پہنچاتا، کیونکہ پروردگار، انسان کے اعمال سے غنی اور بے نیاز ہے اور وہ ذاتِ اقدس اس سے بالاتر ہے کہ انسان کی ناشکری سے اسے کوئی نقصان پہنچ سکے، لہذا نعمت پر شکر کرنا نعمتوں کے بڑھنے کا باعث بنتا ہے اور ناشکری کرنا عذاب کا باعث ہے۔[5] قرآن مجید کی بعض آیات میں شکر کو کفر کے مقابلہ میں رکھا گیا ہے، کیونکہ کفر کے معنی چھپانا ہے اور گویا کافر اللہ کی نعمتوں پر پردہ ڈال دیتا ہے اور مومن شکر کرنے کے ذریعے نعمتوں سے پردہ ہٹا دیتا ہے اور ان کا اقرار کرتا ہے۔
شکر روایات کی روشنی میں: حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) شکر کو ایمان[6] اور تقوا[7] کی علامت،امتحان کا باعث[8]، دولتمندی کی زینت[9]، نعمتوں کے اضافہ ہونے[10] اور محفوظ رہنے[11] کا باعث جانتے ہیں۔
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کا ارشاد گرامی ہے: "شُكرُ النِّعمَةِ اجتِنابُ المَحارِمِ ، و تَمامُ الشُّكرِ قولُ الرجُلِ: الحَمدُ للّهِ رَبِّ العالَمِينَ"[12]، "نعمت کا شکر، حرام سے دوری کرنا ہے اور مکمل شکر انسان کا یہ کہنا ہے: الحَمدُ للّهِ رَبِّ العالَمِينَ"۔
حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "شُكرُ العالِمِ على عِلمِهِ: عَمَلُهُ بهِ، و بَذلُهُ لِمُستَحِقِّهِ[13]"، "عالم کا اپنے علم پر شکر کرنا اس علم پر عمل کرنا اور اس کو اس کے حقدار کو دینا ہے".
شکر کے مراحل: شکر کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ انسان زبان سے اللہ کا شکر کرے، دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ اس نعمت کو محفوظ رکھے اور اسے ضائع نہ کرے، کیا جب ہمیں کوئی دوست ہدیہ دے اور دیکھے کہ ہم نے اسے ضائع کردیا ہے تو کیا شکوہ نہیں کرے گا؟! لہذا نعمت کو محفوظ کرنا شکر کا خود دوسرا مرحلہ ہے، نعمت کو دشمن کے فائدہ میں اور نعمت دینے والے کی مخالفت میں استعمال نہ کرے، انسان نعمت کو اسی راستہ میں استعمال کرے جہاں پروردگار عالم نے استعمال کرنے کا حکم دیا ہے اور اسے گناہ کے راستے میں استعمال نہ کرے۔ شکر کا تیسرا مرحلہ یہ ہے کہ نعمت کے متعلق ہم پر جو فریضہ عائد کیا گیا ہے چاہے واجب ہو یا مستحب، ہم اسے ادا کریں، اگر اللہ تعالی نے ہمیں مال دیا اور ہمیں حکم دیا ہے کہ اس کا کچھ حصہ فقیروں اور ضرورتمندوں کو دو، تو ہمیں اس میں کوتاہی نہیں کرنا چاہیے، اگر حکم دیا ہے کہ مال اگر اتنے نصاب تک پہنچ جائے اور یہ شرایط اس میں پائی جائیں تو اس کی زکات اور خمس نکالو، تو شرائط کے پائے جانے کی صورت میں ہم پر واجب ہے کہ زکات یا خمس نکالیں، یہ اس نعمت کا شکر ہے۔
شکر کا حق ادا کرنے سے انسان عاجز: اللہ کے شکر کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ جب انسان کسی نعمت پر اللہ کا شکر کرتا ہے تو خود شکر کرنا بھی اللہ کی دی ہوئی توفیق ہے کہ اگر اللہ تعالی یہ توفیق عطا نہ فرماتا تو انسان شکر نہ کرسکتا، لہذا اسی توفیق کے لئے بھی ایک اور شکر کرنا چاہیے، پھر اِس دوسرے شکر کی توفیق کے لئے تیسرا شکر کرنا ہوگا، اسی طرح یہ سلسلہ جاری رہے گا اور انسان ہرگز شکر ادا نہیں کرپائے گا، لہذا اگر عجز کا اقرار کردے کہ بارالہا میں تیرا شکر ادا نہیں کرسکتا تو اللہ تبارک و تعالی اسی عجز اور ناتوانی کو شکر کے طور پر قبول کرلے گا۔ جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے موسی (علیہ السلام) کو وحی فرمائی: اے موسی میرا اس طرح شکر کر جیسے میرے شکر کا حق ہے تو حضرت موسیؑ نے عرض کیا: اے میرا پروردگار میں کیسے اس طرح شکر کرسکتا ہوں جیسے تیرے شکر کا حق ہے حالانکہ تیرا جو شکر کرتا ہوں وہ خود ایسی نعمت ہے جو تو نے عطا فرمائی ہے؟ اللہ تعالی نے فرمایا: "يا موسى شَكَرتَني حَقَّ شُكري حينَ عَلِمتَ أنَّ ذلكَ مِنّي"[14] اے موسی! جب تم جان لو کہ اس شکر کی توفیق بھی میں نے تمہیں دی ہے تو تُو نے میرا ویسا شکر کیا ہے جیسا میرے شکر کا حق ہے۔
نتیجہ: قرآن، احادیث اور حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے خطبہ کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ شکر انتہائی اہمیت کا حامل ہے، یہاں تک کہ قرآنی آیات سے واضح ہوتا ہے کہ جو انسان اللہ کا شکر کرتا ہے، اسے اللہ مزید نعمتیں عطا فرماتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے وہ عذاب الہی کی زد میں ہے۔ روایات میں شکر کے مختلف فائدے بیان ہوئے ہیں، جن کے حصول کا راستہ اللہ تعالی کا شکر ہے۔ شکر کی اہمیت یہیں سے ظاہر ہوتی ہے کہ حضرت صدیقہ طاہرہ (سلام اللہ علیہا) نے اپنے خطبہ کی ابتداء میں اللہ کا شکر ادا کیا اس الہام اور اچھی بات پر جو اللہ دل میں ڈالتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] احتجاج، طبرسی، ج1، ص131، 132۔
[2] خلیل بن احمد فراهیدی، العین، ج5، ص292۔ ابن منظور، لسان العرب، ج1، ص170۔
[3] اصفهانی، راغب، المفردات فی غریب القرآن، ص 265۔
[4] نحل، 121۔
[5] ابراهیم، 7؛ نساء، 147۔
[6] نهج البلاغه، حکمت، 325۔
[7] نهج البلاغه، خطبه 184۔
[8] نهج البلاغه، خطبه 90۔
[9] نهج البلاغه، حکمت، 333۔
[10] نهج البلاغه، حکمت، 130 و 147۔
[11] نهج البلاغه، حکمت 238 و 13۔
[12] ميزان الحكمہ، ری شہری، ج6، ص15۔
[13] غرر الحكم : 5667۔
[14] ميزان الحكمہ، ری شہری، ج6، ص15۔
Add new comment