خلاصہ: حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) خدا کی حقیقی معرفت رکھنے والی خاتون۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اگر فاطمہ(سلام اللہ علیہا) کے کردار پر نظر ڈالی جائے تو اس میں سوائے خدا کے جلووں کے اور کچھ بھی نظر نہیں آتا، جیسا کہ ایک دفعہ حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) سے فرمایا: فاطمہ(سلام اللہ علیہا)، جبرئیل کہ رہے ہیں: خدا نے آپ کو سلام کہلوایا ہے اور فرمایا: فاطمہ، سے کہدو کہ جو بھی حاجت ہے وہ طلب کریں، حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) نے تھوڑی دیر فکر کی اور فرمایا: « لا حاجَۀَ لِی غَیرُ النَّظَرِ اِلی وَجهِهِ الکَرِیمِ، میری حاجب اس کے سواء کچھ بھی نہیں ہے کہ میں ہمیشہ خدا کے جمال کو دیکھتی رہو»[ترجمہ ج۴۳، بحارالانوار]۔
یہ کلام اسی زبان سے نکل سکتا ہے جس نے حقیقی اور واقعی کمال کو حاصل کر لیا ہو اور مناجات کی لذت کو محسوس کیا ہو اور جس نے اپنے آپ کو خدا کی محبت می فانی کردیا ہو اسی لئے تو جب حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا ) محراب میں کھڑی ہوجاتی تھیں: «زَهَرَ نُورُها لِلمَلائِکَةِ السَّمَاء، ملائکہ کے لئے آپ کی نماز کا نور پھیل جاتا تھا»[بحار الانوار، ج۲۸، ص۳۸]، آپ کی ذات وہ ہیں جس نے دنیا کی پستوں کی طرف کبھی بھی رجحان پیدا نہیں کیا اور سختی اور تنگدستی نے بھی آپ کے ایمان کو کمزور نہیں کیا اسی لئے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) نے آپ کے بارے میں فرمایا: «إِنَّ ابْنَتِی فَاطِمَةَ مَلَأَ اللهُ قلب ها وَ جوارح ها إِیِمَاناً وَ یَقِینا، میری بیٹی فاطمہ(سلام اللہ علیہا) کا تمام وجود ایمان اور یقین سے بھرا ہوا ہے»[بحار الانوار، ج۴۳، ص۲۹]۔
*محمد باقر مجلسی، زندگانی حضرت زہرا(علیھا سلام)[ترجمہ ج۴۳، بحارالانوار]ترجمہ: روحانی، ص۹۲۳، مھام۔
*محمد باقرمجلسى، بحار الانوار، ج۲۸، ص۳۸، دار إحياء التراث العربي، بيروت، دوسری چاپ،۱۴۰۳ق.
*بحار الانوار، ج۴۳، ص۲۹۔
Add new comment