خلاصہ: خدایا میرے ان گناہوں کے بخش دے جن کے وجہ سے بلاء نازل ہوتی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آج کا انسان ایسی دنیا میں زندگی گزار رہا ہے کہ وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں جو چاہے کروں، مجھے دوسروں سے کیا مطلب، مجھے دوسری مخلوقات سے کوئی مطلب نہیں یے، اس کا نتیجہ یہی ہوگا جیسے کہ کسی نے اپنے لئے آگ کو جلایا ہو اور اس کے دھویں کی وجہ سے لوگوں کو اذیت ہورہی ہے، کیا وہ یہاں پر یہ کہہ سکتا ہے کہ مجھے لوگوں سے کیا مطلب میں تو اپنا کام انجام دے رہا ہوں؟ نہیں ہرگز نہیں یہاں پر انسان یہ نہیں کہہ سکتا کیونکہ اس کے آگ جلانے کی وجہ سے دوسروں کو اذیت ہورہی ہے، اور نہ جانے اس کے آگ کے لگانے کی وجہ سے اس دنیا میں اللہ کی کتنی مخلوق کو کتنی مشکلوں کا سامنہ کرنا پڑرہا ہوگا، یہ انسان کا ایک چھوٹا سا کام ہے جس کی وجہ سے دوسروں کو بہت زیادہ مشکلوں کا سامنہ کرنا پڑرہا ہے، لیکن جب انسان اپنے خالق کی نافرمانی کریگا تو اس کا اثر اس سے زیادہ اس دنیا پر پڑیگا جس کے بارے میں معصومین(علیہم السلام) سے بہت زیادہ روایتیں منقول ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ حضرت علی(علیہ السلام) دعاء کمیل میں اس طرح خدا کی بارگاہ میں عرض کررہے ہیں: «اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تُنْزِلُ الْبَلَاءَ؛ خدایا میرے ان گناہوں کو بخش دے جن کی وجہ سے بلاء نازل ہوتی ہے»(مصباح المتهجّد و سلاح المتعبّد، ج۲، ص۸۴۴)، حضرت علی(علیہ السلام) کے اس فقرہ سے مرتبت دوسری جگہ امام رضا(علیہ السلام) اس طرح فرمارہے ہیں: «جب بھی لوگ ان گناہوں کے انجام دیتے ہیں جن کے وہ پہلے مرتکب نہیں ہوتے تھے، خداوند متعال ان پر جدید بلاؤں کو نازل فرماتا ہے»(الكافي، ج۲، ص۲۷۵)۔
..............................................
مصباح المتهجّد و سلاح المتعبّد، محمد ابن الحسن طوسى ، ج۲، ص۸۴۴، مؤسسة فقه الشيعة، بيروت،۱۴۱۱ق.
الكافي، محمد ابن يعقوب كلينى، ج۲، ص۲۷۵، دار الكتب الإسلامية، تهران، ۱۴۰۷ق.
Add new comment