اس طرح گناہ کرو

Mon, 06/05/2017 - 10:25

خلاصہ: گناہ سے بچنے کےلئے انسان کو بہت زیادہ کوشش کرنی چاہئے نہیں تو امام حسین(علیہ السلام) کی حدیث کی روشنی میں پانج چیزوں کو انجام دینا چاہئے جو کسی کے لئے بھی ممکن نہیں ہے۔

اس طرح گناہ کرو

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     ایک شخص امام حسین(علیہ السلام) کی خدمت میں آیا اور اس نے کہا: میں چاہتا ہوں کہ گناہ نہ کرو مگر میں گناہ سے اپنے آپ کو روک نہیں سکتا ،آپ مجھے نصیحت فرمائیں تاکہ میں اپنے آپ کو گناہ سے روکو۔
     امام(علیہ السلام) نے اس سے فرمایا: پانچ چیزیں کرو اور اس بعد جو چاہو کرو یا اپنے آپ کو گناہ سے روکو۔
امام حسین(علیہ السلام) نے فرمایا:
۱ـ اللہ کی روزی مت کھاؤ اس کے بعد جو چاہو کر۔
۲ـ اللہ کی ولایت سے باہر نکل جاؤ اور اس کے بعد جو چاہو کرو۔
۳ـ ایسی جگہ کو ڈھونڈو جہاں پر خدا نہیں ہے اس کے بعد جو چاہو کرو۔
۴ـ جب ملک الموت تمھاری روح کو قبض کرنے کے لئے آئے، اگر تم اس سے اپنے آپ کو نجات دلاسکتے ہو تو جو چاہے کرو۔
۵ـ جب جھنم کا داروغا تم کو جھنم میں لے جارہا ہو اگر تم اپنے آپ کو وہا ں پر جانے سے روک سکتے ہوتو جو چاہے کرو[۱]۔
    اس رویت کی طرح خداوند متعال قرآن مجید میں ایک آیت میں ارشاد فرمارہا ہے: «وَ قُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَ رَسُولُهُ وَ الْمُؤْمِنُونَ وَ سَتُرَدُّونَ إِلَى عَالِمِ الْغَيْبِ وَ الشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ[سورۂ توبه، آیت:۱۰۵] اور ان سے کہہ دو کہ عمل کئے جاؤ اللہ اور رسول اور مومن سب تمہارے عمل کو دیکھ لیں گے۔ اور تم غائب و حاضر کے جاننے والے کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ پھر جو کچھ تم کرتے رہے ہو وہ سب تم کو بتا دے گا».
     امام حسین(علیہ السلام) نے جن چیزوں کے بارے میں فرمایا ہے ان میں سے کسی ایک کو بھی کرنا کسی کے لئے بھی ممکن نہیں ہے؛ اسی لئے انسان کو چاہئے کے وہ آسانی کے ساتھ کسی بھی گناہ کو انجام نہ دیں بلکہ اگر امام(علیہ السلام) نے جو فرمایا ہے اگر اس میں غور کیا جائے تو انسان اس کے بعد  خود ہی گناہوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیگا کیونکہ جس انسان کو یقین ہوجائے کہ جو رزق اسے مل رہا ہے اس کا دینے والا صرف اور صرف خداوند متعال ہے تو وہ کبھی بھی گناہ نہیں کریگا، یہاں پر رزق سے مراد  صرف ظاہری رزق نہیں ہے بلکہ جو بھی چیز اس کومل رہی ہے اس کا دینے والا خداوند متعال ہے جب اس کو اس بات کا یقین ہوجائے کہ میری ہر خواہش کو پورا کرنے والا خداوند متعال ہے تو اس کو گناہ کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہوگی بلکہ وہ ہر چیز کو خدا ہی سے طلب کریگا۔
     اور انسان کو اگر اس بات کا یقین ہوجائے کے وہ کبھی بھی کسی بھی حال میں خدا کی ولایت سے خارج نہیں ہوسکتا تو وہ ہمیشہ یہ سونچیگا کہ خدا مجھے ہر حال میں دیکھ رہا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ کبھی بھی گناہ نہیں کریگا۔
     اور کیا کسی میں اتنی صلاحیت ہے کہ اگر "ملک الموت" اس کی روح کو قبض کرنے کے لئے آجائے تو اس سے اپنے آپ کو نجات دلائے، ہرگز نہیں جس کے بارے میں خداوند متعال اس طرح ارشاد فرمارہا ہے: «أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِكْكُمُ الْمَوْتُ وَ لَوْ كُنْتُمْ فِي بُرُوجٍ مُشَيَّدَةٍ[سورۂ نساء، آیت:۷۸] تم جہاں بھی رہو گے موت تمہیں پالے گی چاہے مستحکم قلعوں میں کیوں نہ بند ہوجاؤ».
     یہ مشکل ہم سب کے لئے ہے، ہم سب یہ جانتے ہیں کہ خدا ہر جگہ پر موجود ہے  وہ ہمیں دیکھ رہا ہے لیکن اس کے بعد بھی ہم گناہ کو انجام دیتے ہیں، ہم کو اس بات کا علم ہے کہ ہمارے اعضاء اور جوراح کل قیامت کے دن ہمارے گناہوں کی گواہی دینگے لیکن اس  کے بعد بھی ہم گناہ کو ترک نہیں کرتے۔
     جب ہم کو معلوم ہے کہ خدا ہر جگہ موجود ہے اور وہ ہمارے ہر کام کو دیکھ رہا ہے تو ہم کیوں گناہوں سے اپنے آپ کو روک نہیں رہے ہیں، جب ہم کو معلوم ہے کہ ہمارے  یہ اعضاء اور جوارح جس کے ذریعہ ہم گناہوں کو انجام دیرہے ہیں کل ہمارے ہی خلاف گواہی دینگے تو ہم کیوں گناہوں کو انجام دیرہے ہیں؟
    آیات اور روایات کی روشنی میں علماء اس کا جواب  اس طرح فرماتے ہیں: ہم نے صرف سنا ہے کہ ہر جگہ خدا موجود ہے، ہم کو صرف اس بات کا علم ہے کہ کل قیامت کے دن ہمارے اعضاء و جوارح ہمارے خلاف گواہی دینگے لیکن ہم کو دل سے اس بات پر یقین نہیں ہے کہ خدا ہر جگہ حاضر ہے کیونکہ اگر ہم کو دل سے اس بات کا یقین ہوجائے کہ خدا ہر جگہ حاضر ہے تو ہم  اپنی ہر حرکت پر غور و فکر کرنے لگینگے اور ہمیشہ اس بات کی طرف متوجہ روہینگے کہ خدا مجھے دیکھ رہا ہے، مثال کہ طور پر جب کہیں پر آگ جل رہی ہوتی ہے ہم کبھی بھی اس اگ کو ہاتھ لگانے کی کوشش بھی نہیں کرتے کیونکہ ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ اگر آگ کوہاتھ لگائینگے تو ہمارا ہاتھ جل جائیگا، اسی آگ کی طرح اگر ہمیں خدا کے وجود کا علم ہوجائے تو کوئی بھی انسان کسی بھی حالت میں گناہ کرتا ہوا نظر نہیں آئیگا۔

نتیجہ:
     صرف انسان کے لئے کسی چیز کا علم ہونا کافی نہیں ہے بلکہ اس کو اس بات کا یقین ہونا چاہئے کہ اسے جس بات کا علم ہے وہ حقیقت میں ایسا ہے، اگر ایسا ہوجائےتو نہ انسان گناہ کرتے ہوئے نظر آئیگا اور نہ کبھی کس اچھے اور نیک کام کو ترک کریگا۔

- - - - - - - -
حوالہ:
[۱] « جَاءَهُ رَجُلٌ وَ قَالَ أَنَا رَجُلٌ عَاصٍ وَ لَا أَصْبِرُ عَنِ الْمَعْصِيَةِ فَعِظْنِي بِمَوْعِظَةٍ فَقَالَ ع افْعَلْ خَمْسَةَ أَشْيَاءَ وَ أَذْنِبْ مَا شِئْتَ فَأَوَّلُ ذَلِكَ لَا تَأْكُلْ رِزْقَ اللَّهِ وَ أَذْنِبْ مَا شِئْتَ وَ الثَّانِي اخْرُجْ مِنْ وَلَايَةِ اللَّهِ وَ أَذْنِبْ مَا شِئْتَ وَ الثَّالِثُ اطْلُبْ مَوْضِعاً لَا يَرَاكَ اللَّهُ وَ أَذْنِبْ مَا شِئْتَ وَ الرَّابِعُ إِذَا جَاءَ مَلَكُ الْمَوْتِ لِيَقْبِضَ رُوحَكَ فَادْفَعْهُ عَنْ نَفْسِكَ وَ أَذْنِبْ مَا شِئْتَ وَ الْخَامِسُ إِذَا أَدْخَلَكَ مَالِكٌ فِي النَّارِ فَلَا تَدْخُلْ فِي النَّارِ وَ أَذْنِبْ مَا شِئْت‏». بحار الانوار، محمد باقر مجلسی، ج‏75، ص۱۲۶، دار الاحیاء التراث العربی،بیروت، دوسری چاپ، ۱۴۰۳ق.

kotah_neveshte: 

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہم سب یہ جانتے ہیں کہ خدا ہر جگہ پر موجود ہے  وہ ہمیں دیکھ رہا ہے لیکن اس کے بعد بھی ہم گناہ کو انجام دیتے ہیں، ہم کو اس بات کا علم ہے کہ ہمارے اعضاء اور جوراح کل قیامت کے دن ہمارے گناہوں کی گواہی دینگے لیکن اس  کے بعد بھی ہم گناہ کو ترک نہیں کرتے۔
     جب ہم کو معلوم ہے کہ خدا ہر جگہ موجود ہے اور وہ ہمارے ہر کام کو دیکھ رہا ہے تو ہم کیوں گناہوں سے اپنے آپ کو روک نہیں رہے ہیں، جب ہم کو معلوم ہے کہ ہمارے  یہ اعضاء اور جوارح جس کے ذریعہ ہم گناہوں کو انجام دیرہے ہیں کل ہمارے ہی خلاف گواہی دینگے تو ہم کیوں گناہوں کو انجام دیرہے ہیں؟
    آیات اور روایات کی روشنی میں علماء اس کا جواب  اس طرح فرماتے ہیں: ہم نے صرف سنا ہے کہ ہر جگہ خدا موجود ہے، ہم کو صرف اس بات کا علم ہے کہ کل قیامت کے دن ہمارے اعضاء و جوارح ہمارے خلاف گواہی دینگے لیکن ہم کو دل سے اس بات پر یقین نہیں ہے کہ خدا ہر جگہ حاضر ہے کیونکہ اگر ہم کو دل سے اس بات کا یقین ہوجائے کہ خدا ہر جگہ حاضر ہے تو ہم  اپنی ہر حرکت پر غور و فکر کرنے لگینگے اور ہمیشہ اس بات کی طرف متوجہ روہینگے کہ خدا مجھے دیکھ رہا ہے، مثال کہ طور پر جب کہیں پر آگ جل رہی ہوتی ہے ہم کبھی بھی اس اگ کو ہاتھ لگانے کی کوشش بھی نہیں کرتے کیونکہ ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ اگر آگ کوہاتھ لگائینگے تو ہمارا ہاتھ جل جائیگا، اسی آگ کی طرح اگر ہمیں خدا کے وجود کا علم ہوجائے تو کوئی بھی انسان کسی بھی حالت میں گناہ کرتا ہوا نظر نہیں آئیگا۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
4 + 11 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 75