خلاصہ: انسان کے اعمال اور انسان کی تکوینی شخصیت کے درمیان بہت گہرا تعلق پایا جاتا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
دنیا کے حادثے اس حد تک انسان کے اعمال کے تابع ہوتے ہیں کہ اگر انسان خدا کی اطاعت کرے اور اس کی بندگی کرے تو خداوند متعال اس پر رحمتوں کو نازل کرتا ہے، لیکن اگر خدانخواستہ انسان، خدا کی نافرمانی کرتا ہوا نظر آئے تو معاشرے میں اس کی وجہ سے جدید سے جدید قسم کی بلائیں نازل ہونے لگتی ہیں جس کے بارے میں خداوند متعال اس طرح فرمارہا ہے: «ظَهَرَ الْفِسادُ فِى الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِما کَسَبَتْ أَیْدِى النَّاسِ لِیُذِیْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِی عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ[سورۂ روم، آیت:۴۱] لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی کی بنا پر فساد، خشکی اور تری ہر جگہ غالب آگیا ہے تاکہ خدا ان کے کچھ اعمال کا مزہ چکھا دے تو شاید یہ لوگ پلٹ کر راستے پر آجائیں»۔
اس آیت میں قرآن مجید نے ان گناہوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے جن کے وجہ سے سب لوگ پریشانیوں میں گرفتار ہوجاتے ہیں، علامہ طباطبائی اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ انسان کے اعمال اور انسان کی تکوینی زندگی کے درمیان بہت گہرا تعلق پایا جاتا ہے، اگر انسان فطرت کے قانون پر چلتا رہے تو خدا کی برکتیں اس پر نازل ہوتی رہینگی اور جب وہ خدا کے بنائے ہوئے قانون کو توڑنے لگے گا تو اس کی زندگی خراب ہوجائیگی[الميزان، ۱۸، ص۵۹]۔
امام باقر(علیہ السلام) انسان کے گناہوں کے اثرات کے بارے میں اس طرح فرمارہے ہیں: «جان لو کہ کسی بھی سال کی بارش گذشتہ سال سے کم نہیں ہوتی، بلکہ خدا جس جگہ پرچاہے اس کو برساتا ہے۔ بے شک جب معاشرے میں لوگ گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں تو خدا اس حصہ کی بارش وہاں پر نہیں برساتا اور اس بارش کو بڑے اور وسیع بیابانوں اور پہاڑوں پر برسادیتا ہے»[كافي، ج۵، ص۳۷۴،].
*سيد محمد حسين طباطبايى، ج۱۸، ص۵۹، دفتر انتشارات اسلامى جامعه مدرسين حوزه علميه قم، قم، ۱۴۱۷ق.
*محمد بن يعقوب کلینی، ج۵، ص۳۷۴، دار الكتب الإسلامية، تهران، ۱۴۰۷ق.
Add new comment