انسان دنیاوی خواہشات سے سامنا کرتا ہوا سوچتا ہے کہ میری مرضی جو کچھ کرتا رہوں، جبکہ وہ اس بات سے غافل ہوجاتا ہے کہ اسے قوتِ اختیار، اپنی مرضی کو پورا کرنے کے لئے نہیں دی گئی، بلکہ خالق کی مرضی کے عین مطابق عمل کرنے کے لئے دی گئی ہے۔ یعنی جس ذات نے اختیار دیا ہے اس نے خود یہ بھی بتا دیا ہے کہ اِس اختیار کو کہاں پر استعمال کیا جائے۔ قوتِ اختیار اس بات کی دلیل ہے کہ انسان، مسلسل امتحان کی حالت میں ہے۔ اس قوتِ اختیار سے اللہ تعالی انسان کو آزما رہا ہے کہ کیا وہ اختیار کو اپنی خواہشات کے لئے استعمال کرتا ہے یا اللہ کی اطاعت اور عبودیت کے لئے۔ جیسے نیک عمل کو بجالانے پر قوتِ اختیار کو انسان استعمال کرتا ہے اسی طرح چاہیے کہ اختیار کی قوت کو گناہ سے پرہیز کرنے کے لئے بھی استعمال کرے۔ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے فرمایا: "من ترك معصية لله مخافة الله تبارك وتعالى أرضاه يوم القيامة" (وسائل الشيعة، ج۱۱، ص۲۰۱)، "جو شخص اللہ کی معصیت (گناہ) کو اللہ تبارک و تعالی کے خوف سے چھوڑ دے تو اللہ اسے قیامت کے دن خوش کرے گا"۔ لہذا انسان کا اختیار اس قدر طاقتور ہے کہ اللہ سے ڈرتے ہوئے گناہ سے پرہیز کرسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔
(وسائل الشیعہ، شیخ حر عاملی، دار احياء التراث العربي بيروت - لبنان)
Add new comment