خلاصہ: جتنی بھی بلائیں اور مصیبتیں انسان پر نازل ہوتی ہیں، انسان کو چاہئے کے ان کا شکر اداء کریں کیونکہ وہ خدا کو یاد کرنے کا سبب بنتی ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ تعالی اپنے بندوں پر نہایت شفيق اور مہربان ہے، اسکی رحمت ہے کہ اپنے بندوں کو اسی چیز کا مکلف کرتا ہے جسکی وہ استطاعت رکھتے ہیں، جیسا کہ خداوند عالم فرما رہا ہے: « لاَ يُكَلِّفُ اللّهُ نَفْساً إِلاَّ وُسْعَهَا[سورۂ بقرہ، آیت:۲۸۶] اللہ کسی نفس کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا»، کیونکہ « يُرِيدُ اللّهُ أَن يُخَفِّفَ عَنكُمْ وَخُلِقَ الإِنسَانُ ضَعِيفاً[سورہ نساء، آیت:۲۸] خدا چاہتا ہے کہ تمہارے لئے تخفیف کا سامان کردے اور انسان کو کمزور ہی پیدا کیا گیا ہے»۔
جتنی بھی آفات اور بلاء ہم پر نازل ہوتی ہیں، وہ سب ہمارے اعمال کے وجہ سے ہیں، جس کے بارے میں خداوند عالم قرآن مجید میں فرمارہا ہے: « وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ[سورۂ شوری،آیت:۳۰] اور تم تک جو مصیبت بھی پہنچتی ہے وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی ہے اور وہ بہت سی باتوں کو معاف بھی کردیتاہے»، اور امام صادق(علیہ السلام) فرمارہے ہیں: « وَ لَا نَكْبَةٍ وَ لَا صُدَاعٍ وَ لَا مَرَضٍ إِلَّا بِذَنْب[۱] کوئی مصیبت نہیں آتی اور سرکا درد اور مرض لاحق نہیں ہوتا مگر گناہ کی وجہ سے»۔
اوپر جو بیان کیا گیا وہ بلاء کا ایک رخ ہے اسی بلاء کا ایک دوسرا پہلو بھی پایا جاتا ہے جو انسان کے دل سے بلاؤوں کے خوف کو دور کرتا ہے بلکہ مؤمن انسان بلاء کے لئے دعا کرتا ہے، مثال کے طور پر ایک شخص کا تصور کیجئے جو بیمار ہوگیا ہے اور طبیب نے اسے انجکشن(Injection) کی تجویز کی، اگر آپ ظاہری طور پر دیکھینگے تو آپ کو انجکشن کے ذریعہ تکلیف ہوگی لیکن جب اس کے فوائد کو نظر میں رکھینگے جیسے کہ اس کے ذریعہ جلدی سکون کا حاصل ہونا بیماری کا جلدی ختم ہوجانا، آپ اس کے وقتیہ تکلیف کو برداشت کرلینگے اور اس کی تجویز کے لئے طبیب کا شکر بھی اداء کرینگے، انسان کے لئے بلاء بھی ایک انجکشن کی طرح ہے جو ظاہری طور پر تو بہت زیادہ تکلیف کے ساتھ ہوتی ہے لیکن اس کے ذریعہ ہماری بہت زیادہ روحی اور معنوی بیماریوں جیسے غرور، تکبر، اور اسی طرح کی بہت زیادہ دوسری روحی بیماریوں کا علاج ہوتا ہے اسی لئے انسان کے اوپر جب کوئی بلاء نازل ہوتو اسے چاہئے کہ وہ خداوند متعال کا شکر اداء کرے جس طرح ایک طبیب کا انجکشن کے بعد شکر اداء کرتا ہے جس کے بارے میں امام محمد باقر(علیہ السلام) اس طرح فرمارہے ہیں: « إنَّ اللّهَ تَبارَکَ وَ تَعالی إذا أحَبَّ عَبداً غَتَّهُ بِالبَلاءِ غَتّاً وَ ثَجَّهُ بِالبَلاءِ ثَجّاً فإذا دَعاهُ قالَ لَبَّیکَ عَبدی لَئِن عَجّلتُ لَکَ ما سَأَلتَ إنّی علی ذلِکَ لَقادرٌ و لَئِنِ ادَّخرتُ لَکَ فَما ادَّخرتُ لَکَ فَهُوَ خَیرٌ لَک؛ بے شک اللہ تعالی جب بندہ سے محبت کرتا ہے تو اس کو بلاء اور مصیبت میں گرفتار کرتا ہے اور سخت پریشانیوں میں اس کو متبلاء کرتا ہے اور اس وقت جب وہ بندہ دعا کرتا ہے تو خدا فرماتاہے: (لَبَّیکَ عَبدی)اے میرے بندہ لبیک، اگر میں چاہو تو تیرے دعاؤوں کو ابھی قبول کرلو لیکن میں نے ان کو تیرے لئے ذخیرہ قرار دیا ہے جو تیرے لئے بہتر ہے»[۲]۔
انسان اپنے عزیز و اقارب کی ہدایت اور انھیں خدا اور معصومین(علیہم السلام)سے قریب کرنے کے لئے مختلف راستوں کو اپناتا ہے کبھی انھیں نصیحت کرتا ہے کبھی گذشتہ لوگوں کی زندگیوں سے عبرت حاصل کرنے کے لئے کہتا ہے کبھی ثواب کے ذیعہ جنت کا شوق دلاتا ہے اور کبھی جھنم کے خوف سے ڈراتا ہے، خداوند متعال بھی انسان کی تنبیہ اور ہدایت کے لئے ان تمام چیزوں کو استعمال کرتا ہے جن میں سے ایک اس کو مشکلوں میں مبتلاء کرنا ہے جس کے ذریعہ انسان خواب غفلت سے بیدار ہوتا ہے اور گمراہی کے راستوں کو چھوڑ نے کے بارے میں سونچنے پر مجبور ہوجاتا ہے جس کے بارے میں امام جعفر صادق(علیہ السلام) اس طرح فرمارہے ہیں: « المومِنُ لَا یَمضِی عَلَیهِ اربَعُونَ لَیلَه الَا عَرَضَ لَهُ امرُ یَحزُنُهُ یُذَکَرُ بِهِ؛ مؤمن پر ۴۰، راتیں نہیں گذرتی مگر یہ کہ اس پر کوئی نہ کوئی مصیبت نازل ہوتی ہے جو اسے غمگین کرتی ہے جس کے ذریعہ وہ متوجہ ہوتا ہے»[۳].
نتیجہ:
خداوند متعال مؤمن کو بلاؤوں اور مصیبتوں میں اس لئے مبتلا کرتا ہے تاکہ اس کے لئے جنت کے راستوں کو ہموار کریں کیونکہ انسان جب بلاؤوں میں گرفتار ہوتا ہے تو خدا کو بہت زیادہ تڑپ کے ساتھ یاد کرتا ہے اور خدا کو اپنے بندہ کا اس طرح پکارنا بہت زیادہ پسند ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱]۔ محمد بن يعقوب كلينى، الكافي، ج۲، ص۲۶۹. دار الكتب الإسلامية، ۱۴۰۷ ق،
[۲] محمد باقرمجلسى، بحار الأنوار، ج۶۴، ص۲۰۸، دار إحياء التراث العربي،بيروت، دوسری چاپ، ۱۴۰۳ق.
[۳] گذشتہ حوالہ، ص۲۱۱۔
Add new comment