واقعہ کربلا کی عبرتیں

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: واقعہ کربلا سے دنيا نے بہت درس و سبق حاصل کيے ہيں۔ يہ سانحہ جہاں انسان کو زندگی کے مختلف پہلوؤں کے لحاظ سے درس ديتا ہے وہيں يہ مقام عبرت بھي ہے۔ اس ليۓ ہميں چاہيۓ کہ اس واقعے کا ہر لحاظ سے بغور جائزہ ليں اور اس سے عبرت حاصل کريں۔

 واقعہ کربلا کی عبرتیں

 
کربلا سے عبرت لينے کا مطلب
اس کا مطلب يہ ہے کہ ہميں تاريخ کي روشنی ميں پيش آنے والے حالات کو ذہن نشين کرتے ہوۓ ہر طرح کے حالات سے باخبر رہنا چاہيۓ اور مشکل حالات کے ليۓ خود کو تيار رکھنا چاہيۓ اور مصيبت کي گھڑی ميں کيسے خود کو تيار کرنا ہے اس بارے ميں سوچنا چاہيۓ۔ کون سا امر اُس کيلئے خطرے کا باعث ہے اور کس امر کي انجام دہی اُس کيلئے الزامی و ضروری ہے؟ اِسے عبرت لينا کہتے ہیں۔
مثال کے طور پر سفر کے دوران آپ کی نظر ايک گاڑی پر پڑتی ہے جو حادثے کا شکار ہو کر الٹی پڑی ہے۔ اس ميں موجود مسافر ہلاک ہو گۓ ہيں۔ آپ کو خيال آتا ہے کہ مجھے يہاں رک کر حالات کا جائزہ لينا چاہيۓ۔ آپ حادثے کے مقام پر کھڑے ہو کر کچھ دير کے ليۓ گاڑی کو ديکھتے ہيں۔ آپ کے وہاں کھڑے ہو کر بغور جائزہ لينے کا مقصد يہي ہوتا ہے کہ حادثے کي وجہ معلوم کي جاۓ تاکہ آپ اس سے عبرت حاصل کرتے ہوۓ زندگی ميں وہ غلطی نہ دہرائيں جس کے باعث يہ گاڑی حادثے کا شکار ہوئی۔ اس کے بعد آپ ڈرائيونگ کرتے ہوۓ ہميشہ احتياط برتيں گے۔(1)
يہ بھي درس و سبق لينا ہے ليکن يہ درس از راہ عبرت ہے لہٰذا اِس جہت سے واقعہ کربلا ميں غور و فکر کرنا چاہيے۔
 
پہلي عبرت: مسلمانوں کے ہاتھوں نواسہ رسول (ص) کي شہادت!
واقعہ کربلا ميں پہلی عبرت جو ہميں اپني طرف متوجہ کرتی ہے وہ يہ ہے کہ ہم يہ ديکھيں کہ پيغمبر اکرم (ص) کے وصال کے بعد اسلامی معاشرے ميں وہ کون سے حالات وقوع پذير ہوئے کہ نوبت يہاں تک آ پہنچی کہ امام حسين جيسی شخصيت، اسلامي معاشرے کی نجات کيلئے ايسی فدا کاری کی زندہ مثال قائم کرے۔
اگر ايسا ہوتا کہ امام حسين رسول اکرم (ص) کي وفات کے ايک ہزار سال بعد اسلامی ممالک ميں اسلام کي مخالف و معاند اقوام کے اصلاح و تربيت کيلئے ايسی فداکاری کرتے تو يہ ايک الگ بات ہے ليکن يہاں امام حسين وحی کے مرکز يعنی مکہ و مدينہ جيسے عظيم اسلامی شہروں ميں انقطاعِ وحی کے پچاس سال بعد ايسے اوضاع و حالات کا مشاہدہ کرتے ہيں کہ اُن کی اصلاح کيلئے اپنی جان کو فدا کرنے اور قربانی دينے کے علاوہ کوئی اور چارہ کار نہيں پاتے! مگر وہ کون سے حالات تھے کہ جن کيلئے امام حسين نے يہ احساس کيا کہ فقط اپنی جان کی قربانی ہی کے ذريعہ اسلام کو زندہ کرنا ممکن ہے واِلَّا سمجھو کہ پانی سر سے گزر گيا! عبرت کا مقام يہ ہے۔
ايسا اسلامي معاشرہ کہ جس کے رہبر اور پيغمبر (ص) مکہ و مدينہ ميں بيٹھ کر اسلام کے پرچم کو مسلمانوں کے ہاتھوں ميں ديتے تھے اور وہ جزيرۃ العرب کے کونے کونے ميں جاتے اور شام و ايران و روم اُن کے وجود سے کپکپاتے تھے اور انہيں ديکھتے ہی فرار کرجانے ميں اپنی غنيمت سمجھتے تھے، يوں مسلمان فاتحانہ اندار ميں واپس لوٹتے تھے؛ بالکل جنگ تبوک کی مانند- يہی اسلامي معاشرہ تھا کہ جس کي مسجدوں اور کوچہ و بازار ميں تلاوت قرآن ہو رہی تھی
وہ معاشرہ جس ميں امام حسين پروان چڑھے اور سب نے پيغمبر اکرم (ص) کا عمل ديکھا کہ وہ امام حسين سے کتنا پيار کرتے تھے، حضرت علی و حضرت فاطمہ (س) کی کيا کيا فضيلتيں ہيں! 11 ہجری سے 61 ہجری تک يہ کيا ہوگيا کہ يہی امت، حسين کو قتل کرنے کربلا آگئی۔ وہی لوگ جو کل تک امام حسين کی عظمتوں کے گن گاتے تھے آج اُن کے خون کے پياسے بن گئے ہيں؟! 15 سالوں ميں يہ کونسا سياسی، اجتماعی اور ثقافتی انقلاب آيا کہ حالات بالکل بدل گئے اور اسلام و قرآن پر ايمان رکھنے والے لوگ، فرزند رسول (ص) کے قاتل بن گئے؟! لہٰذا واقعہ کربلا کو سياسی اور ثقافتی حالات کے پس منظر ميں ديکھنا چاہيے کہ جوہم سب کيلئے درس عبرت ہو۔(2)
 
قرآن کي صدائيں بلند ہوتی تھيں اور پيغمبر اکرم (ص) بہ نفس نفيس خود اپنی تاثير گزار صدا اور لحن سے آيات الٰہی کو لوگوں کيلئے تلاوت کرتے تھے اور عوام کی ہدايت کے ذريعہ انہيں بہت تيزی سے راہ ہدايت پر گامزن کرتے تھے۔
اب پچاس سال بعد کيا ہوگيا کہ يہی معاشرہ اور يہی شہر، اسلام سے اتنے دور ہوگئے کہ حسين ابن علی جيسی ہستی يہ ديکھتی ہے کہ اِس معاشرے کي اصلاح و معالجہ، سوائے قربانی کے کسی اور چيز سے ممکن نہيں۔ يہی وجہ ہے کہ يہ قربانی پوری تاريخ ميں اپنی مثل و نظير نہيں رکھتی ہے۔ آخر کيا وجوہات تھيں اور کيا علل و اسباب تھے کہ جو اِن حالات کا پيش خيمہ بنے؟ مقام عبرت يہ ہے۔
 دوسري عبرت: اسلامي معاشرے کي آفت و بيماری
موجودہ زمانے ميں ہميں چاہيے کہ اِس جہت و زاويے سے غور وفکر کريں۔ آج ہم بھي ايک اسلامی معاشرہ رکھتے ہيں، ہميں تحقيق کرني چاہيے کہ اُس اسلامی معاشرے کو کون سی آفت و بلا نے آگھيرا تھا کہ جس کے نتيجے ميں يزيد اُس کا حاکم بن بيٹھا تھا ( اور لوگ اُسے ديکھتے اور جانتے بوجھتے ہوئے بھي خاموش تھے)؟ آخر کيا ہوا کہ امير المومنين کي شہادت کے بيس سال بعد اُسی شہر ميں کہ جہاں امير المومنين حکومت کرتے تھے اور جو آپ کی حکومت کا مرکز تھا، اولاد علی کے سروں کو نيزوں پر بلند کرکے پھرايا جاتا ہے (اور آل نبی (ص) کي خواتين کو قيدی بنا کر اُسی شہر کے بازاروں اور درباروں ميں لايا جاتا ہے)؟!
کوفہ کوئی دين سے بيگانہ شہر نہيں تھا، يہ کوفہ وہی شہر ہے کہ جہاں کے بازاروں ميں امير المومنين اپنے دور حکومت ميں مسلمانوں کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کيا کرتے تھے؛ رات کي تاريکي ميں غريبوں اور مسکينوں کی مدد کرتے، پردئہ شب ميں مسجد ِکوفہ ميں علی کي مناجات اور صدائے تلاوت قرآن بلند ہوتی تھی اورآپ دن کي روشني ميں ايک مقتدر قاضي کي مانند حکومت کی باگ دوڑ کو سنبھالتے تھے۔ آج اکسٹھ ہجری ميں يہ وہي کوفہ ہے کہ جہاں آل علی کی خواتين کو قيدي بناکر بازاروں ميں پھرايا جارہا ہے!!اِن بيس سالوں ميں يہ کيا ہوا تھا کہ حالات يہاں تک پہنچ گئے تھے!(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منابع:

(1) آٖفتاب در مصاف  رہبر معظم انقلاب ص 307

(2) ایضا ص 309

(3) بازشناسی نہضت عاشورا محمود اصغری ص 403

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
3 + 6 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 81